ایک_انسان_کا_عمل_دوسرےانسان_کونفع_پہنچاتا ہے
✍️از عبدالباری قادری جامعیؔ منظریؔ
خالق کائنات جل جلالہ کا بےحدکرم واحسان عظیم ہے، کہ اس سرائے فانی میں اہل سنت وجماعت کی تعداد اکثریت میں پائی جاتی ہے، اس دارے گیتی میں اہل سنت جہاں کہیں بھی آباد ہیں، ان کے معمولات میں سے ایک معمول یہ ہے، کہ فرد انسان جب دار فانی سے گزر کر عالم ممات میں پہنچتا ہے، توہر وقت، ہرساعت، اور ہرلمحہ اپنے اعزا، اقربا اور دوست واحباب کی امداد و استعانت کا اسی طرح محتاج و متمنی رہتا ہے، جیسے کہ اس کارگہ حیات میں تھا، اس مقام ارواح میں اموات کو اعمال صالحہ سے ہی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے، یہ عمل حسنہ نبی کریم ﷺ کے زریں عہد سے لیکر ہمارے روشن عہد تک جاری و ساری ہے، مگر قرون اولی سے ہمارے زمانے تک اسلام کے رسم و رواج کو مخالفین اسلام غلط ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کرتے رہے ہیں، اور ہمارے دیار ہند میں وہابیہ، دیابنہ اور اہل حدث نے جہاں اور حملے کیے، وہیں اس عمل خیرکو صرف ہدف ملامت نہیں بنایا بلکہ کفر و شرک بتاکر سیدھے سادھے مسلمانوں کو اس کار خیر سے دور کرنے کی بیجا سعی کی اور کر رہے ہیں ، اس لیے آج ہم اس خامہ فرسائی میں اس عمل خير کی حقیقت کو جاننے کی جدوجہد کرینگے، آپ احباب سے التماس ہے کہ مکمل پڑھنے کی زحمت گوارہ کریں۔
اولاً ہم اس مسئلے کو دو جز میں تقسیم کرتے ہیں،
پہلی فصل دلائل منقولہ سے ثبوت،
اور دوسری دلائل عقلیہ سے ثبوت۔
*پہلی فصل دلائل نقلیہ میں*
مالک ارض وسما، خالق کون ومکاں نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا "والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان" (ترجمہ) اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ ( پ ۲۸، س حشر، آیت ۱۰)
اس آیت طیبہ کے تحت تفسیر روح البیان میں ہے: "وفي الآية دليل على ان الترحم والاستغفار واجب على المومنين الآخرين للسابقين بهم لا سيما لابائهم ومعلميهم أمور الدين" (ترجمہ) یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ گذشتہ مسلمانوں کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور مغفرت چاہنا پچھلے مسلمانوں پر واجب ہے، خاص کر اپنے آباواجداد اور دینی علوم کے اساتذہ کے لیے۔
نیز اس آیت کریمہ کے تحت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ بھی فرماتے ہیں: "وقد نقل غير واحد الإجماع على ان الدعاء ينفع الميت، ودليله من القرآن قوله تعالى والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان" (شرح الصدور، ص۳۰۵، باب ما ینفع المیت فی قبرہ)
(ترجمہ) اور اس امر پر بہت سے علما نے اجماع نقل کیا ہےکہ بیشک دعا میت کو نفع دیتی ہے، اور اس کی دلیل قرآن مجید میں اللہ تعالی کا یہ قول ہے ”والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان“۔۔
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: "ربنا اغفر لی و لوالدی و للمؤمنین یوم یقوم الحساب" (س ابراهيم، آیت ٤١)
اے ہمارے رب مجھے بخش دے، اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے: "و قل رب ارحمهما كما ربیٰنی صغیرا " (س الاسری، آیت ۲٤) (ترجمہ) اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے بچپنے میں مجھے پالا تھا۔
اس کے تحت تفسیر روح البیان میں ہے: " وادع الله أن يرحمهما برحمته الباقية ولا تكتف برحمتك الفانية "
(ترجمہ) اللہ تعالٰی سے یہ دعا کرو کہ وہ اپنی رحمت باقی کے ساتھ ان پر رحم فرمائے اور اپنی رحمت فانی پر اکتفا نہ کرو ۔
اور حدیث پاک میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما الميت في القبر إلا كالغريق المتغوث، ينتظر دعوة تلحقه من أب، أو أم، أو أخ، أو صديق، فإذا لحقته كان أحب إليه من الدنيا وما فيها، وإن الله تعالى ليدخل على أهل القبور من دعاء أهل الأرض أمثال الجبال، وإن هديّة الأحياء إلى الأموات الاستغفار لهم" (مشکوۃ شریف، باب لاستغفار والتوبۃ، تیسری فصل، ص۲۰٦)
(ترجمہ) مردوں کی حالت قبر میں ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہوتی ہے، وہ انتظار کرتا ہےکہ اس کےباپ، یا ماں، یا بھائی، یا دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے، اور جب اس کو کسی کی دعا پہنچتی ہے، تو وہ دعا کا پہنچنا اس کو دنیا و مافیہا سے محبوب تر ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ اہل زمین کی دعا سے اہل قبور کو پہاڑوں کی مثل اجر و رحمت عطا کرتا ہے، اور بیشک زندوں کا تحفہ مردوں کی طرف یہی ہے کہ ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی جائے۔
اور اسی طرح دوسری حدیث پاک میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کہ اللہ تعالی نے جنت میں اپنے نیک بندے کا درجہ بلند فرمایا، فيقول: يا رب،أني لي هذه؟ فيقول: باستغفار ولدك لك" (مشکوۃ شریف باب لاستغفار والتوبۃ، تیسری فصل، ص۲۰٦، ابنماجہ رقم الحديث ۳٦٦٠)
اسی طرح اہل سنت وجماعت کی عقائد کی مشہور و معروف کتاب شرح عقائد نسفی میں ہے: " وفي دعاء الأحياء للاموات اوصدقتهم( اي صدقة الأحياء) عنهم(عن الأموات) نفع لهم " (شرح عقائد، ص۳۵٦، مكتبةالمدینة)
نیز منح الروض الازهر في شرح الفقه اكبر میں ہے: اتفق اهل السنه ان الاموات ينتفعون من سعي الاحياء" ( ص ۳۷۳، مکتبہ بیروت)
قران کریم کی ان آیات طیبہ، آحادیث مبارکہ، اور کتب عقائدہ کی عبارت رشیقہ کے دیکھنے کے بعد ہر ذی علم وفہم اور منصف پسند پر مہر نیم روز کی طرح عیاں ہو جاتا ہے، کہ مسلمان مردوں کے لیے بخشش و رحمت اور مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے، خواہ آباواجداد ہوں، یا اساتذۂ دینی، یا ان کے علاوہ دیگر مرحومین، اور یہ بھی واضح ہو گیاکہ ایک انسان کا عمل دوسرے انسان کو نفع پہنچاتا ہے۔
*دوسری فصل دلائل عقلیہ میں*
آج کے ترقی یافتہ دور میں معاشی واقتصادی اسباب و وسائل کے عجائب و غرائب زاویے وجود میں آرہے ہیں، اور وہ کس قدر نفع بخش وخوش کن ہے، کسی عوام و خواص سے مخفی و پوشیدہ نہیں، انہیں جدید ذراٸع ابلاغ اشیا میں سے ایک چیز واٹس ایپ ہے، جو کہ فی زمانہ بہت مشہور و مفید ہے، بایں صورت کہ جب کوئی انسان کاغذات وغیرہ اپنے برادر یا رفیق کو ارسال کرنا چاہتا ہے، تو صرف تصویر لیتا ہے، اور انٹرنیٹ کی مدد سے وہ چیز اس تک بھیج دیتا ہے، اور وہ شی اس کے عزیز تک پہنچ جاتی ہے، اور نفس کاغذ اس فرد انسان کے پاس باقی رہتا ہے، یہی حال فیسبک، انسٹاگرام، ٹیلیگرام، اور ٹیوٹر کا ہے، جبکہ یہ مصنوعی چیز ہے، تو جب مغربی ایجادات کردہ چیزوں کی اتنی طاقت و قوت ہے، کہ ایک شے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتی ہے، تو کیا آپ کا جز ایمان انصاف و دیانت سے یہ نہیں کہتا، کہ وہ رب لم یزل جس نے اس دار فانی کو عدم سے وجود بخشا، اور ہمیں لفظ کن سے پیدا فرمایا، اور ہماری ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاکرام علیہم السلام کو اس دنیا کی طرف مبعوث فرمایا ، اس مالک حقیقی کے اندر اتنی وسعت و توانائی نہیں کہ ایک انسان کا عمل دوسرے انسان کو پہنچائے؟ اور ہے ضرور ہے۔
دلائل عقلیہ سے بھی منیر شمس کی طرح اظہر ہو گیا، کہ زندہ انسان کے اعمال خیر کا ثواب ان کی نیت وخلوصیت کے مطابق کم یا زیادہ ثواب فورا اللہ تعالی اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے توسل سے عطا فرما دیتا ہے، اور وہ ثواب اپنے عزیز و اقارب کو پہنچ جاتا ہے۔
اب رہی بات ایصال ثواب کا طریقہ کیا ہے، کس طرح سے اپنے مرحومین کو اسکا نفع پہنوچایا جائے، کون سا عمل اختیار کیا جائے، جو مردوں کے حق میں بھی نفع بخش ہو، اور زندوں کے بھی، تو اگر ہم اس کے متعلق کتب آحادیث کی طرف نظر دوڑائیں، تو ہمیں ایک بہت ہی مشہور و معروف اور معتبر حدیث پاک ملتی ہے، جو اس بات کی جانب مشیر ہے، کہ لوگوں کی حاجت کی چیزیں صدقہ و خیرات کر کے ان کی شش و پنج دور کیا جائے، جیسے کہ حدیث پاک میں ہے: "يا رسول الله إن أم سعد ماتت فأي الصدقة أفضل قال الماء قال فحفر بئرا وقال هذه لأم سعد" (سنن أبي داود، رقم الحديث ۱٦٨١،)
(ترجمہ) یا رسول اللہ ﷺ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ وفات ہو گئی، ان کے لیے کون سا صدقہ بہتر ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، پانی، تو حضرت سعد نے کنواں کھدوایا، اور کہا کہ یہ ام سعد کے لیے ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے سرکار نے کنواں کے لیے ہی کیوں حکم دیا؟ جب آپ تاریخ کا مطالعہ کرینگے، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں پانی کی اشد و ازحد ضرورت تھی، بایں وجہ سنگلاخ پہاڑوں، حسین وادیو، اور وسیع لق ودق صحراؤں میں دور دراز تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا، اسلیے آقا کریم ﷺ نے کنواں کھدوانے کا حکم دیا، اب اگر ہم فی زماننا اپنے گرد و نواح کی طرف دیکھیں، تو ہمیں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آتا، کہ جس کے پاس پانی کی قلت ہو، "الحمدللہ" اور نہ ہی ایسا شخص دیکھنے کو ملتا ہے، کہ جس کے پاس کھانے پینے کے اشیاء فراہم نہ ہو، اور اس کی قلت ہو، بلکہ عصر حاضر میں دیکھا جائے، تو اب ضرورتیں دوسری جانب مبذول کراتی ہیں، یوں تو بے شمار طریقے ہیں، مگر چند میں ذکر کیے دیتا ہوں، جس سے مردوں کو فاٸدہ اور زندوں کو بھی نفع مل سکتا ہے،
اولا بہرائچ یا فلسطین کے خستہ حال مسلمانوں کی امداد و اعانت کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، اسی طرح دور حاضر میں بہت سارے علما و مفتیان کرام ہیں، جن کے اندر تصنیف و تالیف کی لیاقت و صلاحیت تو ہے، مگر رقم کی کمی ہونے کی وجہ سے، تصنیفی کام نہیں کر پا رہے ہیں، اسلیے اگر ان کو کچھ حوصلہ دیا جائے، اور انکے کاموں میں حصہ لیا جاۓ، تو زیادہ احسن و اعلٰی ہوگا۔ اور اس کار خیر کے ذریعہ سے ہم اپنے مردوں کو بھی نفع پہنوچا سکتے ہیں، اور اسکا فاٸدہ زندوں کو بھی مل سکتا ہے؛ جو کہ بہتر و مناسب اور جاٸز ہے۔
0 Comments