ہم مسلمان تو ہیں مگر مومن نہیں Ham Musalman To Hai Magar Momin Nahi

ہم مسلمان تو ہیں مگر مومن نہیں.                                          
Ham Musalman To Hai Magar Momin Nahi 
 آج کے مسلمان اگر مومن بھی ہوتے تو دنیا کے مختلف مذاہب و تہذیب کے علمبرداروں کے درمیان اعلی شان اور امتیازی تہذیب کے مالک ہوتے ، حالانکہ معاملہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ اس لئے قرآن کہتا ہے: ولا تھنوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران: ۱۳۹) اور تم نے کمزور بنو اور نہ غم کھاؤ، اور تمہیں اعلی رہو گے اگر مومن ہو گے ۔ )
 کمزوری اور غمگینی آج کے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے، کیونکہ یہ اعلی نہیں ، ادنی ہیں تو پھر یہ مومن کیسے؟ ۔ آج کے مسلمان اگر مؤمن ہوتے تو آج انکی جو درگت ہے، وہ رہتی نہیں، بلکہ وہ اس گھٹیا حالت سے ضرور نکل آتے، کیونکہ قرآن کہتا ہے وماكَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ علی مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ (آل عمران: ۱۷۹) اللہ کی شان نہیں کہ وہ مومنوں کو اس حال پہ چھوڑ دے جس پر تم سب ہو۔ ) اللہ ان کے ساتھ ہوتا ، ناراض ہو کر انھیں چھوڑتا نہیں۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے: وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ المُؤْمِنِينَ (الانفال: (۱۹) (بے شک اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔) 
قرآن کی ان تمام آیتوں سے پوری طرح واضح ہوتا ہے کہ موجودہ دور کے مسلمان ابھی مسلمان کے مرحلے میں ہیں ، ترقی کر کے مومن کے درجے تک نہیں پہنچے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان آیتوں میں جب بھی غلبہ ونصرت مدد ومعیت اور شان وسربلندی کی بات کی ہے تو مومنوں کا نام لیا۔ مسلمانوں کا نہیں۔
 اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے یہاں مسلمان اور ہیں، مومن اور ۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک مومن کیسا ہوتا ہے اور اس کی خوبی کیا ہوتی ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے قرآن کہتا ہے۔ التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجدون الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُن وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (التوبة : ١١٢) جو تو بہ کرنے والے، عبادت کرنے والے ، اللہ کی حمد کرنے والے برابر روزہ رکھنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیکی کاحکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری سنا دو۔ ) ، 
، بھلا اس آیت میں اہل ایمان کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں، بظاہر اس میں کوئی خاص بات معلوم نہیں پڑتی۔ مثال کے طور پر کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ کیا آج کا مسلمان تو یہ کرنے والا نہیں ہوتا؟ بات اصل میں یہ ہے کہ لوگ تو بہ کی رسم ادا کرتے ہیں، وہ کھو کھلے الفاظ بولتے ہیں اور روتے ہیں۔ حقیقت میں تو بہ اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرنا ہوتا ہے۔ گناہوں سے تو بہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گناہ گار کو احساس بھی ہو کہ اس سے گناہ ہوا ہے اپنے اس گناہ پر شرمندہ ہے اور آئندہ اس گناہ کو نہ دہرانے کا اللہ سے وعدہ کرتا ہے۔ یہ ہے حقیقت میں اہل ایمان کی توبہ ہے۔ تو یہ حقیقت میں برائی کے خاتمے کا اعلان ہے۔

 ویسے تو مسجدوں اور خانقاہوں میں توبہ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اسٹیجوں سے چیخ چیخ کر احتجاجی تو بہ کر رہے ہیں مگر دیکھ لیں کہ سچی تو بہ کرنے والے کتنے لوگ ہیں ؟ کس کس کو اپنے اخلاقی اور شرعی جرم کا احساس واعتراف ہے؟ خرافات پر پچھتا رہا ہے اور شرمندہ ہے؟ کون اپنی برائیوں اور خرابیوں سے باز آنے کو تیار ہے؟ اگر ہمیں اہل ایمان کی توبہ نصیب ہوتی تو ہمارے معاشرے کا یہ حال نہ ہوتا ۔

Post a Comment

0 Comments