Insan ki Zindagi Aur us Me Hone Wale Imtihan आदमी की जिन्दगी में मुश्किल क्यो आता है


 قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ اس نے انسان کو آزمائے جانے کے لیے پیدا کیا۔ چنانچہ سورۂ ملک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تا کہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے عمل میں زیادہ بہتر کون ہے ۔ (الملک : ۷۶/۳ ) اسی طرح سورہ انعام آیت ۱۶۵، سورہ ہود آیت کے ، سورہ کہف آیت ہے ، اور دیگر سورتوں میں بھی اس بات کو دو ہرایا گیا ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ آزمائشوں کا مقصد کیا ہے؟ آزمائشوں کی حقیقت : دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ہم بے شمار امتحان دیتے ہیں، اس لیے کہ امتحانات دیے بغیر کبھی بھی ترقی نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی اسکول ایسے بچے کو قبول نہیں کرے گا جس کے والدین یہ شرط لگا ئیں کہ یہ بہت لاڈلا ہے، لہذا اس کا امتحان مت لیجیے گا۔ پس ، ہر قابل قدر چیز کی طرح جنت کی بھی ایک قیمت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” بیشک اللہ کا سودا مہنگا سودا ہے۔ سن لو، بیشک اللہ کا سودا جنت ہے“ (ترمذی)۔ اگر اسکول والے امتحان نہ لیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں، لیکن اگر اللہ کی طرف سے امتحان آجائے تو انسان کبھی سوچتا ہے کہ کیا میں ہی رہ گیا تھا ؟ ہم اللہ سے آسان امتحان مانگتے ہیں لیکن جنت - کی قیمت چکانے کے لیے امتحان ہو گا ضرور ۔ امتحان کے ذریعے ہی کھوٹے اور کھرے کا فرق پتا چلتا ۔ ہے۔ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کو کافروں نے ظلم و تشدد


کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ کافر چلا کر پوچھتے کہ کہاں ہے تمھارا رب؟ وہ تمھیں کیوں نہیں بچاتا ؟ وہ جواب دیتے تھے کہ جب تم مٹکا بھی خریدتے ہو تو اس کو بجا کر دیکھتے ہو کہ یہ مضبوط ہے یا کھو کھلا ۔ میرا رب بھی مجھے آزما رہا ہے کہ میں جنت کے قابل ہوں یا نہیں؟ اس امتحان میں ممتحن اللہ تعالیٰ ہے اور اسی نے امتحان کی کتاب (textbook) یعنی قرآن کریم ہمارے لیے اتارا ہے۔ بلا شبہ تلاوت قرآن پر بھی اجر ہے، لیکن قرآن دراصل عمل کی کتاب ہے: ” یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ایک برکت والی کتاب ۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے (انعام ۱۵۵:۶) ۔ اگر اس کو سمجھ کر اس کو اپنے عمل میں ڈھالا جائے تو دنیا اور آخرت کے مراحل خیر اور آسانی سے طے ہو پائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معلم ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا: ”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں“ (ابن ماجہ ) ۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی زندہ مثال تھے ( بخاری ) ۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کرنا تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، لیکن جب تک پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر ان کے نقش قدم پر نہ چلا جائے تو امتحان کا پرچہ صحیح حل نہیں ہو پائے گا: ” جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمھیں دے وہ لے لو، اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ“۔



امتحان کسی چیز کا ہے؟ گھروں اور گاڑیوں کا؟ بہترین گریڈوں اور نمبروں کا؟ نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کون بہترین عمل کرنے والا ہے؟ (الملک : ۶۷/۲) ۔ نیک اعمال ہی آخرت کی کرنی ہیں اور اس کے لیے ہماری تگ و دو ہونی چاہیے: پس تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (البقره: ۱۴۸/۲) نتیجہ کب آئے گا؟ نتیجہ آخرت میں آئے گا: ” کامیاب دراصل وہ ہے جو آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے (ال عمران ۱۵۸:۳) ۔ جیسے بئر معونہ کے واقعہ میں ایک شخص نے حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو پیچھے سے نیزہ مار کر شہید کیا۔ جب انھوں نے اپنے سینے سے نیزے کی نوک نکلتی دیکھی تو پکار اٹھے : ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا !؟ ( بخاری ) ۔ قاتل یہ بات سن کر حیرت میں ڈوب گیا کہ میں نے اس کو قتل کیا اور اس نے کہا کہ میں کامیاب ہو گیا ؟ پھر جب اس کو پتا چلا کہ اسلام میں کامیابی اور ناکامی کے تصورات نے آخرت کی وسعتوں کو سمیٹا ہوا ہے اور وہ محض اس دنیائے فانی تک محدود نہیں ہیں، تو اس نے رب العالمین کے آگے اپنا سر جھکا لیا اور مشرف بہ اسلام ہوا۔ یہ دنیا کمرہ امتحان ہے: ” جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی زینت به بنایا ہے تا کہ ان کو ہے تا کہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے (الکہف ۷:۱۸ )۔ امتحان کے ختم ہونے کے ساتھ یہ سب بھی ختم ہو جائے گا: ” آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں (الکہف ۸:۱۸ ) ۔ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے پرچے اور اسباب امتحان ہیں، بہن بھائی سے لے کر گاڑی اور گھر تک :


تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں (التغابن ۶۴ : ۱۵)۔ ان پرچوں کو ہم نے بحسن و خوبی ادا کر کے اپنا مقصد ، یعنی رضاے الہی اور جنت حاصل کرنا ہے نہ کہ انھی کو اپنا مقصد بنائیں۔ دنیا کے امتحانات میں ہر تھوڑی دیر بعد ایک نئی نسل (batch) آتی ہے اور اس کا از سر نو امتحان لیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب میں ارتداد کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف سے مشکلات نے گھیر لیا۔ انسان سوچ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم ہی اتنا بڑا تھا، اس کے باوجود اتنی زیادہ مشکلات کیوں؟ در اصل صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تو مختلف آزمائشوں سے گزر کر اعلیٰ درجات حاصل کر چکے تھے۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایک نئی کھیپ آگئی تھی اور ان کا امتحان بھی ضروری تھا ( جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مزید بلند درجات حاصل کرتے گئے ) ۔ پچھلے امتحانات (past papers) سے بھی سیکھا جاتا ہے، اس لیے کہ سوال اور طرز سوال دہرائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ابراہیم علیہ السلام اور نمرود ، موسی علیہ السلام اور فرعون کے قصے ہمیں اتنی مرتبہ اسی لیے سنایا ہے کیونکہ ہم ہر دور میں ان سے ملتے جلتے کرداروں کو پائیں گے۔ واقعات دُہرانے کا یہی مقصد ہے کہ ہم ان کرداروں کی پہچان، ان کے انجام سے واقفیت، نیکوکاروں سے حوصلہ اور بدکاروں سے عبرت کے اسباق حاصل کریں۔ جن لوگ نے اس زندگی کو آزمائش جان کر گزارا ان کی بلندیاں ہی اور تھیں ۔ اگر یہ ایک تصور درست ہو جائے تو سوچ اور عمل کی بہت ساری کجیاں دور ہو جاتی ہیں ۔ آج دنیا میں مسلمانوں


کے جو حالات ہیں، اللہ چاہے تو ایک لمحے میں ان کو درست کر سکتا ہے۔ لیکن دراصل وہ ہمیں آزما رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ حق اور باطل کی کش مکش میں ہم میں سے کون اپنا حصہ ادا کر رہا ہے اور کون محض تماشائی بنا بیٹھا ہے: ” اگر چہ تمھارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ) تا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے، اس میں وہ تمھاری آزمائش کرے۔ (المائده ۴۸:۵) جب امتحانات گزر جائیں گے اور پورا انعام اور ثواب وصول ہو جائے گا تو انسان ان تمام سختیوں کو بھول جائے گا جو اس نے جھیلیں تھیں ۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن اہل : جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزاری تھی ۔ اس کو جنت میں ایک بار ڈبکی دی جائے گی ، پھر اللہ تعالیٰ اس سے سوال فرمائے گا: اے ابن آدم ، کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی؟ کیا تم کبھی کسی پریشانی سے گزرے؟ وہ جواب دے گا کہ نہیں اللہ کی قسم ! میں نے کبھی کسی قسم کی تکلیف نہیں دیکھی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امتحان زندگی میں کامیاب کرے۔ آمین! مقصد زندگی: قرآن میں اللہ تعالیٰ ہم سے سوال کرتا ہے: بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمھیں یوں ہی بے مقصد پیدا کر دیا، اور تمھیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے، اس کی شان اس سے اونچی ہے ( کہ وہ بے مقصد کچھ بنائے ) ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے ۔ (المومنون ۱۱۵:۲۳) ایسی زندگی جس کا کوئی مقصد نہ ہو یوں ہی ہے جیسے ایک جسم ہو جس میں روح نہ ہو، یا ایک قافلہ ہو جس کی کوئی منزل نہ ہو۔



لیکن اللہ نے تو ہمیں بھٹکنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ہماری زندگیاں ایک خوب صورت معنی خیز مقصد کی حامل ہیں جو جب ایک مرتبہ واضح ہو جائے تو بہت ساری الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار ہا ذکر کرتا ہے کہ اس کی کوئی بھی ماہنا۔ کا کے ۵۱ کی مخلوق بے مقصد پیدا نہیں کی گئی: ”ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے“ (الانبیاء ۱۶:۲۱-۱۷) یہی مضمون سورۃ حجر ۸۵:۱۵ - ۸۶ ، سورۃ یونس ۱۵:۱۰ اور سورۃ دخان ۳۸:۴۴-۳۹ میں بھی بیان نہا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارے ارد گرد جو کچھ ہے، سب ایک نہایت گہرا اور پاکیزہ مقصد رکھتے ہیں: ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق کے اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے (الاحقاف (۳:۴۶) ہو ہو ا 1 پس، وہ مقصد کیا ہے اور انسانی زندگی پر کیسے اثرات 

چھوڑتا ہے؟


Post a Comment

0 Comments