ملت اسلامیہ کیسے متحد ہو؟
ملت اسلامیہ کی تاریخ شاہد ہے کہ حکومتیں قومی ہوں یا رنگ و نسل اور لسانی دھڑوں پر مبنی ، ان سب کو متحد کرنے کا واحد حل قرآن کریم کا دستور تسلیم کر لینے کا اعلان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی مملکت کا دستور قرآن مجید ہی تھا۔ چنانچہ جب دو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا معاملہ لے کر حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کرنے سے پہلے ہی تبادیا: والَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا قُضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ. (صحيح البخاری (۲۷۲۴) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان لازما کتاب اللہ (اللہ کی شریعت) سے فیصلہ کروں گا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی امت کو زندگی کے اہم شعبوں کے لئے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا نچوڑ پیش کیا تھا تو ان میں یہ ہدایت بھی شامل تھی۔ وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللهِ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا . (صحيح مسلم (۱۸۳۸) اپنے حکمران کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ تمھارے معاملات کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق چلاتا رہے۔
کیا ہونا چاہیے اسلامی حکومت کا دستور
حقیقی اعلان تھا کہ اسلامی حکومت کا دستور قرآن ہی ہوتا ہے جس کی رو سے فرد و معاشرہ ہو یا سیاست و معیشت کے معاملات، سب کا کتاب وسنت کے دائرے میں رہنا ضروری ہے، یہی نفاذ شریعت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت راشدہ کا آغاز ہوا، تو مملکت اسلامیہ کا دستور قرآن و سنت ہی تھا، بلکہ خلافت کا تصور ہی یہ ہے کہ وحی الہی ( کتاب و سنت ) کی پابندی کرتے ہوئے انتظام و انصرام اور جہاد و قتال وغیرہ حکمرانی کے تمام معاملات شرعی ہدایات کے مطابق انجام دیے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ منتخب ہوئے تو انہوں نے بیعت کے بعد پہلا خطبہ ارشاد فرمایا: جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرنا لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت فرض نہیں ہے۔ اچھا اب جاؤ! نماز پڑھو، اللہ تم پر رحم فرمائے ۔“ (البدایہ والنہایہ (۵/۲۴۸) یہی قرآن وسنت کی دستوری حیثیت کا اعلان تھا گو یا خلافت راشدہ کا آغاز قرآن و سنت کو حکومتی دستور تسلیم کرنے کے ساتھ ہوا تھا
حضرت عمر نے کیا اعلان کیا جب خلیفہ بنے
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی اپنے پہلے خطبے میں
یہی اعلان کیا تھا
اور اس میں یہ اضافہ بھی فرمایا تھا کہ میں کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو خلیفہ کی روایات بھی قائم رکھوں گا۔ جبکہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا فیصلہ کرتے وقت متفقہ مجاز اتھارٹی، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کا اعلان کیا تو ان کی بیعت اس شرف پر کی تھی۔ أُبَايِعُكَ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ، وَالخَلِيفَتَيْنِ مِنْ بَعْدِهِ.
(صحيح البخاری (۷۰۷۲) میں آپ کی بیعت اس شرف پر کرتا ہوں کہ آپ کتاب و سنت کی پیروی کریں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خلفاء ابو بکر و عمر کی روایات کی پاس داری رکھیں گے، اسے خلافت راشدہ بھی کہتے ہیں۔ ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی حکومت کی بنیاد اسی منہاج کو قرار دیا تھا ، جس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کو اسلامی حکومت میں صرف راہ نما اصول یا ما خذ قانون
(Source of Law)
کا درجہ حاصل نہیں ہے بلکہ خود کتاب وسنت بنیادی قانون اور دستور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کل کتاب وسنت کی اسی دستوری حیثیت کا انکار دستور و قانون سازوں کے ہاتھ میں قرآن وسنت سے انحراف کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عہد نبوت سے لے کر اختتام خلافت تک تمام اسلامی حکومتوں کا دستور قرآن مجید رہا ہے ۔ جس کی دائمی حتمی تعبیر سنت ہے اسے شریعت بھی کہتے ہیں۔
حضرت حسن نے جب امیر معاویہ سے معاہدہ کیا
مزید وضاحت کے لئے چند خاص واقعات پیش ہیں
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے جب اپنی حکومت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کی تو یہی شرط لگائی تھی ۔ اس صلح کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دے دی تھی : عَنْ أَنَسٍ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٌّ عَلَى فَخِذِهِ وَيَقُولُ : إِنِّي لَا رُجُوانُ يَكُونَ ابْنِي هَذَا سَيِّدًا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يُصْلِحَ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ أُمَّتِي. (السنن الكبرى للنسائي (۱۰۴/۹) حدیث نمبر : ۱۰۰۱۱ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے ہیں جبکہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ کی ران پر بیٹھے ہیں، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: مجھے امید ہے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہوگا اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرادے گا۔ حضرت حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما نے انتقال اقتدار کے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اس کے متعلق تاریخ الحموی میں واضح طور پر لکھا ہے۔: هذا ما صالح عليه الحسن بن على بن أبي طالب معاوية بن ابي سفييان رضى الله عنه على أن يسلم اليه ولاية أمر المسلمين على ان يعمل فيهم بكتاب الله و سنة نبيه الله و سيرة الخلفاء الصالحين (تاريخ الحموي : ۷۷) یہ وہ نوشتہ ہے جس پر حسن بن علی نے معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ مصالحت کی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی ولایت و
حکومت کو امیر معاویہ کے سپرد اس شرط پر کیا ہے کہ وہ مسلمانوں میں کتاب الہی ، اس کے رسول کی سنت اور خلفائے راشدین کے طریقے پر عمل پیرا ہوں گے۔ خلافت راشدہ کے بعد خلافت بنو امیہ اور خلافت بنو عباس میں بھی دستور قرآن ہی تھا۔ جس کی دائمی تعبیر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ خلافت عباسیہ کے دوسرے خلیفہ منصور کے امام مالک سے ملاقات میں قرآنی دستور کی نئی تعبیر متعین کرنے کا مسئلہ پیش آیا تو امام مالک نے ایسی کسی بھی دستاویز کو تیار کرنے سے معذرت کر لی تھی پھر اس کے پوتے ہارون رشید کو جب پتہ چلا که امام دار الهجره مالک بن انس نے سنت و حدیث پر مشتمل ایک اہم کتاب ترتیب دی ہے تو اس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کی کتاب (موطا ) کو ہی کعبہ شریف میں لٹکا کر پوری اسلامی خلافت کے لئے اسے حتمی تعبیر قراردے دوں
امام مالک نے اپنی کتاب کو کیوں لٹکانے سے منع کیا؟
تو امام مالک نے فرمایا: اس میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ صحابہ اور تابعین کے اجتہادات بھی موجود ہیں۔ اس لئے میں قطعا یہ نہیں کہہ سکتا کہ موطاء دستور قرآن کی مکمل تعبیر ہے گویا موطاء قرآن کریم کی حتمی تعبیر کے طور پر پوری اسلامی خلافت میں تسلیم کرانا مناسب نہیں ہے۔ (الطبقات لابن سعد : ۹/۴۴۱) اسی بنا پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے : كل أحد يؤخذ من قوله و يرد الا صاحب هذا القبر الله البداية والنهاية : ١٦٠/١٤) کسی بھی شخص کی بات لی جاسکتی ہے اور ردبھی کی جاسکتی ہے سوائے اس قبر والے ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے۔
0 Comments