نماز کی فرضیت
اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور پچاس نمازیں فرض کیں ۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی ۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی: میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کر دیتا ہوں ۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔
نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام
اس موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی فکر اور اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیت ( آمن الرسول سے لے کر آخر تک ) عنایت فرمائی گئی۔ اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
امتیوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ تو بہ سے معاف ہو جائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ھونا
رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا ، انبیاء کرام سے ملاقات اور پھر الله جل شانہ کی دربار میں حاضری، جنت و دوزخ کو دیکھنا ، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے۔ ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔ جب حضور ا کرم صلی للہ علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کئے گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روشن فرما دیا ، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے جارہے تھے
سفر معراج کے بعض مشاهدات
اس اہم و عظیم سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کر رہا ہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔
کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رھے تھے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخون تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں ) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں ۔ ( ابوداؤد)
سود خوروں کی بدحالی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے (انسانوں کے رہنے کے ) گھر ہوتے ہیں ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ ( مشکوۃ المصابیح )
کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں۔
زكاة نه دینے والوں کی بدحالی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لیٹے ہوئے ہیں اور اونٹ و بیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار و خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
سڑا هوا گوشت کھانے والے لوگ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
سدرة المنتهى كيا هے ؟
احادیث میں سدرۃ المنتہی اور السدرۃ المنتہی دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں سدرۃ المنتہی استعمال ہوا ہے۔ سدرۃ کا معنی ہے بیری کا درخت اور منتہی کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہو جاتے ہیں اور جو بندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں پھر وہاں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں پھر اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم ان گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر امت کو بیان فرمایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرما اور دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی عطا فرما!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " کسی مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مومن سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے، اگر تین دن ہو جائے اسے چاہیے کہ وہ مسلمان بھائی سے جاملے اور اس کو سلام کرے، اب اگر وہ سلام کا جواب دے دے، تو وہ دونوں اجر میں شریک تو ہیں اور اگر وہ جواب نہیں دے تو وہ گنہگار ہوا، اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل جائے گا۔ (سنن ابی داؤد شریف )
0 Comments