کون تھےسلطان شمس الدین التمش کون ہے Who is Sultan Shamshuddin Altamash

 


بہت زمانہ گزرا شہر بخارا کے چوراہے پر ایک کم سن بچہ کھڑ ازار و قطار رو رہا تھا۔ اتنے میں ایک درویش کا گزر اس چوراہے سے ہوا۔ بچے کو روتا دیکھ کر درویش کا دل بھر آیا۔ قریب جا کر رونے کا سبب پوچھا۔ بچے نے کہا: "میرے مالک نے انگور خریدنے کے لیے مجھے پیسے دیے تھے، وہ راستے میں کہیں گر گئے ۔ اب خالی ہاتھ مالک کے پاس کس طرح جاؤں؟" درویش نے کہا: " گھبراؤ نہیں۔ میں تمہیں انگور دلا دوں گا۔ مجھے یہ بتاؤ تم کون ہو؟" بچے نے بتایا: " میرا نام شمس الدین ہے۔ میں ایک شریف ترک کا بیٹا ہوں۔   
میرے والدترکستان کے ابری قبیلہ کے سردار علم خان ہیں۔ میرے بھائی دھوکے سے مجھے باہر لے گئے اور حسد میں آکر حضرت یوسف کی طرح ایک سوداگر کے ہاتھ بیچ دیا۔ اسی سوداگر کے ساتھ میں بخارا پہنچا۔ یہاں حاجی جمال الدین صاحب نے مجھے خرید لیا۔ اب میں انہیں کا غلام ہوں۔ وہ مجھے اپنی اولاد کی طرح مانتے ہیں ۔" شمس الدین کی گفتگو اور اس کے چہرے مہرےسے فقیر نے بھانپ لیا کہ یہ بچہ بہت ہی ہو نہار ہے، حالاں کہ آج ایک غلام ہے مگر آگے چل کر بڑا آدمی بنے گا۔ اسے دکان پر لے جا کر انگور دلا یا اور کہا:

 " تمہاری 
یہ غلامی تمہارے درجات بلند کرنے میں بڑی مددگار ثابت ہوگی۔
 تم بھی حضرت یوسف کی طرح ایک دن سلطنت کے مالک بنو گے۔ مگر یاد رکھو، جب اللہ تمہیں اپنی رحمتوں سے نوازے تو غریبوں محتاجوں اور درویشوں کو بھول نہ جانا۔ ضرورت مندوں کا خاص طور سے خیال رکھنا ۔“ بچے نے فقیر کی نصیحت غور سے سنی اور حسن سلوک کا وعدہ کیا۔ حاجی جمال الدین نے اس کی تعلیم کا معقول انتظام کیا۔ اسے بھی بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان سے ادب و آداب ، نیز دین کی باتیں سیکھنے کا بے حد شوق تھا۔ جب ذرا بڑا ہوا تو حاجی صاحب اُسے قطب الدین ایبک کی خدمت میں لے گئے ۔ قطب الدین اس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا اور منھ مانگی قیمت دے کر خرید لیا۔ شاہی حلقے میں پہنچ کر شمس الدین کو اپنی بہادری اور قابلیت کے جوہر دکھانے کا خوب موقع ملا۔ اپنے سلوک سے وہ سب کی آنکھوں کا تارا ہو گیا۔ قطب الدین ایبک اسے دل سے چاہنے لگا۔ مزید ترقی کے مواقع دینے کے لیے اس نے اسے آزاد کر کے اپنی بیٹی سے شادی کر دی۔ سلطان شہاب الدین محمد غوری کی وفات کے بعد 1206ء میں جب قطب الدین ایبک شمالی ہند کا بادشاہ بنا تو اس نے شمس الدین کو صوبہ بدایوں کا گورنر مقرر کیا ۔ چار سال بعد قطب الدین بھی اس دنیا سے چل بسا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا بعض مورخ اسے لے پالک مانتے ہیں، آرام شاہ تخت نشین ہوا۔ مگر وہ نا اہل ثابت ہوا۔ ایسی صورت میں سلطنت کے اعلیٰ عہدے داروں نے مل کر شمس الدین التمش کو اپنا بادشاہ منتخب کرلیا۔ اس طرح وہی غلام جسے قطب الدین نے منھ مانگی قیمت دے کر خریدا تھا، اللہ کی نوازش اور اپنی اولوالعزمی اور لیاقت سے شمالی ہند کا بادشاہ بن گیا۔ بادشاہ بنتے ہی اس نے اپنے تمام مخالفین کی سرکوبی کی اور آزاد ہو چکے صوبوں کو واپس اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ اس طرح بنگال سے صوبہ سرحد تک پورے شمالی ہندوستان پر اس کی حکمرانی ہو گئی۔ ادھر چنگیز خاں نے سلطنت خوارزم شاہی پر حملہ کر کے اس کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔

جلال الدین خوارزم شاہ بھاگ کر غزنی پہنچا۔ چنگیز خاں پیچھا کرتا ہوا غزنی بھی آیا۔ اس وقت سلطان التمش نے جلال الدین خوارزم شاہ کو نہایت مہذبانہ طریقے سے اپنے سفیر کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ مرکزی ہندوستان کی آب و ہوا آپ کو راس نہیں آئے گی۔ یہ پیغام سن کر جلال الدین خوارزم شاہ نے ہندوستان آنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس طرح التمش نے دہلی کو چنگیز خان کے حملے سے بچالیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ التمش کی دوراندیشی نے ہندوستان کو تباہی سے بچالیا۔ التمش کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی ۔ خلیفہ بغداد نے سند حکومت اور خلعت فاخرہ، اور ناصر امیر المومنین کے خطاب سے نوازا۔ اگر چہ عباسی خلیفہ زوال کا شکار تھے پھر بھی ساری دنیا کے مسلمان خلیفہ وقت کا احترام کرتے ، خطبے میں پہلے اس کا نام اور پھر اپنے ملک کے مسلمان بادشاہ کا نام پڑھا کرتے ۔ اس سند کی وجہ سے التمش ہندوستان میں ہر دل عزیز ہو گیا۔ التمش پہلا مسلمان حکمراں تھا جس نے برصغیر میں پہلی مرتبہ عربی طرز کے سکے رائج کیے، جس کا وزن 175 گرین تھا۔ التمش کے سکے بہت ہی خوب صورت اور معیاری تھے۔ اس پر عربی رسم الخط میں خلیفہ بغداد کے نام کے علاوہ سلطان کا لقب ناصر امیر المومنین کندہ تھا۔ سلطان شمس الدین التمش بجا طور پر سلطنت کا عظیم فرماں روا تھا۔ بحیثیت ایک اعلیٰ انسان اور موزوں حکمراں کے وہ تمام سلاطین دہلی میں بلند مقام رکھتا ہے۔ التمش نے سلطنت کے استحکام کے لیے سلطان کا وقار اور رعب و دبدبہ قائم کرنا ضروری سمجھا۔ اس مقصد کے لیے امراء چہل گانی کی ایک نئی تنظیم قائم کی۔ لائق ، قابل اور قابل اعتماد لوگوں کو اس میں شامل کیا اور انہیں تمام اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔ سلطان نے غیر ملکی اور مقامی باشندوں میں سے بھی قابل ترین اور قابل اعتما دادگوں کو اعلیٰ مناصب دیے۔ اتنی بڑی سلطنت کا حاکم ہو جانے کے بعد بھی التمش میں غرور نام کو بھی نہ تھا۔ وہ بڑا خدا ترس، رحم دل ہی اور دلیر تھا۔ ارکان اسلام کی سختی سے پابندی کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتا ، راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا۔ عالموں اور بزرگوں کی صحبت میں رہتا۔ جب بھی وقت ملتا وقت ملتا ان کے پاس اچھی باتیں سیکھنے جاتا۔ خواجہ معین الدین چشتی کے سب سے جلیل القدر شاگرد

حضرت قطب الدین بختیار کا کی" کی مجلس میں اکثر حاضر رہتا۔ انھوں نے وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ میرے جنازے کی نماز وہ پڑھائے جس نے کبھی عصر کی سنتیں قضا نہ کی ہوں، ہمیشہ نماز با جماعت میں تکبیر اولیٰ سے شریک رہا ہو اور حرام کی طرف بھی قدم نہ بڑھایا ہو۔ وصیت کی ان شرطوں پر اتمش پورا اترا چناں چہ اس نے جنازے کی نماز پڑھائی ۔ قطب الدین بختیار کائی سے التمش کو بے حد عقیدت و محبت تھی ۔ التمش نے تعمیرات پر بھی خصوصی توجہ دی۔ قطب مینار جس کی تعمیر کا کام ایک نے شروع کیا تھا۔ اس نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مینار اس کی عظمت کا ان مٹ نشان ہے۔ مسجد قوت الاسلام کی توسیع کی اور شمسی حوض بنوایا۔ درویش نے بچپن میں جو نصیحت کی تھی التمش اسے ساری زندگی نہیں بھولا ۔ سلطان بننے کے بعد اس کا معمول تھا کہ رات میں گاڑی پہن کر اور اشرفیوں کی تھیلیاں ساتھ لے کر نکل کھڑا ہوتا ، غریبوں اور محتاجوں کو ڈھونڈتا پھرتا۔ ہر سحق کے دروازے پر جاتا، حالات پوچھتا اور ان کی مدد کرتا۔ ضرورت مندوں، بے کسوں اور مظلوموں کو عام اجازت تھی کہ وہ دربار میں بلا جھجک آجائیں۔ التمش کا نظام سلطنت بلا شبہ عظیم کارنامہ ہے۔ جس کی بدولت سلطنت دہلی کو استحکام نصیب ہوا۔ مگر خلیفہ بغداد معتصم باللہ سے منشور خلافت کے ذریعہ اپنی اور اپنی حکومت کی حیثیت کو آ اور قانونی بنانا اس کا وہ کارنامہ ہے جو عظیم ترین ہے۔ ان تمام کارناموں کے بنا پر سلطنت دہلی کا پہلا آئینی ”سلطان التمش ہی حقیقی معنوں میں اس کا بانی کہلانے کا مستحق ہے۔ سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں بے شمار علماء وفقہا دہلی میں جمع ہو گئے تھے، جن میں بعض کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں ۔ مثلاً قاضی فخر الائمہ، قاضی (شیخ) حمید الدین ناگوری، شیخ نظام الدین ابوالموید غزنوی، قاضی قطب الدین کا شانی اور نجم الدین صفرا و غیرہ ۔ لیکن ان میں سر فہرست سید نورالدین مبارک غزنوی کا نام ہے۔

عہد وسطی میں ہندوستان کے مسلم حکمراں 39 حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی مجلس میں اکثر حاضر رہتا۔ انھوں نے وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ میرے جنازے کی نماز وہ پڑھائے جس نے کبھی عصر کی سنتیں قضا نہ کی ہوں، ہمیشہ نماز با جماعت میں تکبیر اولی سے شریک رہا ہو اور حرام کی طرف کبھی قدم نہ بڑھایا ہو۔ وصیت کی ان شرطوں پر التمش پورا اترا چناں چہ اسی نے جنازے کی نماز پڑھائی ۔ قطب الدین بختیار کائی سے التمش کو بے حد عقیدت و محبت تھی ۔ التمش نے تعمیرات پر بھی خصوصی توجہ دی۔ قطب مینار جس کی تعمیر کا کام ایک نے شروع کیا تھا۔ اس نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مینار اس کی عظمت کا ان مٹ نشان ہے۔ مسجد قوت الاسلام کی توسیع کی اور شمسی حوض بنوایا۔ درویش نے بچپن میں جو نصیحت کی تھی التمش اسے ساری زندگی نہیں بھولا ۔ سلطان بننے کے بعد اس کا معمول تھا کہ رات میں گاڑی پہن کر اور اشرفیوں کی تھیلیاں ساتھ لے کر نکل کھڑا ہوتا ، غریبوں اور محتاجوں کو ڈھونڈتا پھرتا۔ ہر مستحق کے دروازے پر جاتا ، حالات پوچھتا اور ان کی مدد کرتا۔ ضرورت مندوں، بے کسوں اور مظلوموں کو عام اجازت تھی کہ وہ دربار میں بلا جھجک آجائیں۔ التمش کا نظام سلطنت بلا شبہ عظیم کارنامہ ہے۔ جس کی بدولت سلطنت دہلی کو استحکام نصیب ہوا۔ مگر خلیفہ بغداد معتصم باللہ سے منشور خلافت کے ذریعہ اپنی اور اپنی حکومت کی حیثیت کو آئینی اور قانونی نونی بنانا اس کا وہ کارنامہ ہے جو عظیم ترین ہے۔ ان تمام کارناموں کے بنا پر سلطنت دہلی کا پہلا آئینی ” سلطان التمش ہی حقیقی معنوں میں اس کا بانی کہلانے کا مستحق ہے۔ سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں بے شمار علماء وفقہا دہلی میں جمع ہو گئے تھے، جن میں بعض کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں ۔ مثلاً قاضی فخر الائمہ، قاضی (شیخ) حمید الدین ناگوری، شیخ نظام الدین ابولموید غزنوی، قاضی قطب الدین کا شانی اور نجم الدین صفرا وغیرہ۔ لیکن ان میں سرفہرست سید نورالدین مبارک غزنوی کا نام ہے۔


Post a Comment

0 Comments