اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت خدیجہ سے
نکاح کیوں کیا ؟
رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت اصحاب فیل کے واقعے کے سال عام الفیل میں ہوئی تھی ۔ یعنی جس سال اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا تھا۔ سرور انبیاء پیشوائے اصفیاء بروز سوموار 12 ربیع الاول کو عالم ناسوت میں جلوہ افروز ہوئے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ماں کے شکم میں ، سوموار کے دن نطفہ قرار پایا تھا ، ولا دت سوموار کے دن ہوئی اور وفات بھی سوموار کے دن ہوئی ۔ رسول اللہ ﷺ کی والدہ محترمہ شعب ابی طالب کی وادی میں جمرات الوسطی کے قریب حاملہ ہوئی تھیں۔ حضرت آمنہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے حمل کے وقت دیکھا کہ ایک نور میرے اندر سے نکلا اور اُس نے ملک شام اور بصرہ کے محلوں کو روشن کر دیا، پھر حمل قرار پا گیا۔ خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ آپ کا حمل بالکل ہلکا تھا۔ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے دونوں ہاتھ زمین پر اور سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا ۔ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی ولادت با سعادت کی رات کسری کے محل میں زلزلہ آ گیا اور اس کے چودہ کنگرے زمین پر گر پڑے ۔ ایران کے آتش کدے کی آگ جو دو ہزار سال سے روشن تھی، بیجھ گئی گی اور دریائے ساوا کا پانی خشک ہو گیا تھا۔ حضرت فرماتے تھے کہ حضرت آمنہ جتنے دن رسول اللہ کی حاملہ رہیں تو انھیں وہ تکلیف جو عورتوں کو ہوتی ہے ، ہرگز نہیں ہوئی اور نہ ولادت کے وقت جو درد عورتوں کو ہوتا ہے، انہیں ہوا۔
فرشتوں نے حضرت آمنہ سے کیا کہا؟
حضرت آمنہ کو دکھایا گیا کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کے فرشتے اُن کے گھر نازل ہوئے ہیں اور مجھے بشارت دے رہے ہیں: اے بی بی ! آج اولاد آدم میں سب سے بہتر اور خوبصورت ترین ہستی کا تعلق زمین سے ہوا ہے جس کے نور آفتاب سے مشرق تا مغرب جگمگائیں گے۔ پہلی خاتون جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلا یا وہ ابولہب کی کنیز تثویبہ تھی۔ اُس زمانے میں یہ رواج تھا کہ قبیلہ بنو سعد کی دودھ پلانے والی عورتیں کے آتی تھیں سخت گرمی اور لو سے بچانے کے لیے اپنے بچوں کو اجرت پر ان کے سپرد کر دیتے تھے ۔ دودھ پلانے والی عورتوں یعنی دائیوں نے سکے دوسرے سرداروں کے بچے حاصل کر لیے۔ حلیمہ سعدیہ کو چونکہ کوئی بچہ نہیں ملا تھا ، اس لئے انہوں نے مجبور رسول اللہ ﷺ کو لے لیا ۔ آپ کہ مقیم تھے۔ اس لیے وصلى الله کوئی اُن کی طرف توجہ نہ کرتا تھا۔ جب حلیمہ نے اپنا پستان آپ کے دہن مبارک میں رکھا تو پستان سے اس قدر دودھ جاری ہوا کہ دس بچے سیر ہو سکتے تھے۔ اس سے پہلے خود ان کے لیے کافی نہ ہوتا تھا۔ حضرت فاطمہ کے پاس ایک اونٹنی تھی جو بالکل مریل اور کھجلی والی تھی جو ہزار کوڑے کھا کر بھی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہ ہو۔ وہ کمزور اور دبلی پتلی اونٹنی آپ کے سوار ہونے کی برکت سے دوبارہ جوان ہوگئی یہاں تک کہ اس دن بنو سعد کا کوئی اونٹ طاقت میں اس کی برابری نہیں کر سکتا تھا۔ اُس اونٹنی نے جو پورے طور پر دودھ سے محروم تھی ، اتنا زیادہ دودھ دیا جو حضرت حلیمہ کے خاندان کے لیے کافی تھا۔
حضرت حلیمہ سفر میں تھیں تو قبیلہ ذہیل کے چند بزرگ بستی سے باہر نکلے۔ جب ان کی نظر رسول اللہ ﷺ پر پڑی تو دیر تک دیکھتے رہے، پھر بولے کہ یہ بچہ تمام روئے زمین کا بادشاہ ہوگا ۔ جب وادی سدرہ میں پہنچے تو وہاں پہلے ہی سے جبش کے عالم کھڑے ہوئے تھے۔ آپ کو دیکھا تو اپنی زبان میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ بچہ پیغمبر آخرالزماں ہے۔ مختصر یہ کہ اس قسم کی باتیں آپ کو دیکھ کر بہت سے عالموں اور کاہنوں نے کہیں۔ جب حضرت حلیمہ آپ کو لے کر اپنے گھر پہنچیں تو ان کے پاس صرف ایک بکری تھی۔ آپ کے قدم کی برکت سے ان کے گھر میں تین سو بکریاں جمع ہو گئیں ۔ اسی طور مال و اسباب بڑھتے چلے گئے۔ رسول الله، حضرت خدیجہ سے نکاح سے پہلے ، اُن کے غلام میسرہ کے ساتھ تجارت کی غرض سے ملک شام روانہ ہوئے۔ جس وقت شام میں داخل ہوئے تو آپ نے ایک راہب کے گرجا گھر کے قریب ایک درخت کے سائے میں قیام کیا۔ اُس راہب نے کھڑکی سے میسرہ کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ یہ صاحب کون نہیں؟ میسرہ نے اُسے جواب دیا کہ یہ صاحب قبیلہ قریش سے ہیں اور حرم مکہ کے رہنے والے ہیں ۔ راہب نے کہا کہ : اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے کوئی قیام نہیں کرتا۔ اُس کے بعد آپ نے اپنا مال فروخت کیا اور جو چیزیں خریدنی منظور تھیں، وہاں سے خریدیں۔ تمام سامان اونٹوں پر لادے اور مکہ واپس ہوئے ۔ واپسی پر میسرہ نے بتایا کہ جس وقت دو پہر کی سخت گرمی ہوتی تھی تو دو فرشتے آتے تھے اور آپ پر گرمی سے بچانے کے لیے سایہ کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ اپنے اونٹ پر سفر جاری رکھتے تھے۔ جب مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے وہ چیزیں جو آپ شام سے لائے تھے فروخت کر دیں، اس سے دو
گنا یا اس کے قریب نفع ہوا۔ میسرہ نے حضرت خدیجہ کو راہب سے اپنی گفتگو اور فرشتوں کے سایہ کرنے کے بارے میں بتایا ۔ جب آپ حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے تو اُنہوں نے آپ سے کہا: اے چچا کے بیٹے آپ کے بارے میں لوگوں کے نیک گمان نیز میرے قریب ہونے کے سبب مجھے آپ سے دلچسپی ہو گئی ہے۔ آپ کا اپنی قوم میں شریف ہونا، امین ہونا ، صاحب خلق ہونا اور قول میں صادق ہونا بھی اس دلچسپی کا سبب ، پھر حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ پر اپنے آپ کو پیش کیا ، یعنی نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت خدیجہ اس زمانے میں افضل نسب والی اور بڑی شریف خاتون تھیں ۔ ساتھ ہی بہت مالدار بھی تھیں اور ان کی قوم کا ہر شخص ان امور کے باعث ان کا حریص تھا۔ حضرت خدیجہ نے رسول اللہ سے جو کہا تھا ، آپ نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا۔ آپ کے " چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب آپ کے ہمراہ آپ کے ساتھ خویلد بن اسد کے مکان پر گئے اور آپ کی طرف سے حضرت خدیجہ کو نکاح کا پیغام دیا جسے خویلد بن اسد نے قبول کر لیا۔ اس کے بعد ابو طالب شہر کے معزز لوگوں کے ساتھ آئے اور خطبہ نکاح پڑھا : تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ثابت ہیں جس نے ہمیں ابراہیم اور اسماعیل کی اولاد میں پیدا کیا اور ہمیں اپنے گھر کی نگہبانی اور حرم کے انتظام کا شرف بخشا۔ اس نے خانہ کعبہ کو امن کی جگہ قرار دیا اور ہمیں لوگوں پر حاکم بنایا۔ بے شک میرے بھتیجے محمد بن عبد اللہ سب لوگوں سے وزن میں زیادہ ہیں، یعنی اگر چہ محمد ہے تھوڑا مال رکھتے ہیں جو آتا جاتا سایہ ہے لیکن بنوخزاعہ سے پورے طور پر قرابت رکھتے ہیں۔ محقق کہ خدیجہ بنت خویلد نے نکاح کا پیغام دیا اور ان کے لئے ، ان کے مال میں سے اتنا اور اتنا مہر مقر رکیا لہذا خدا کی قسم احمد اعلی خصلتوں اور شرافتوں کے حامل ہیں۔ اُنھوں
نے خدیجہ کو اپنے نکاح میں لیا۔ نکاح کے وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف پچیس سال ، دو ماہ ، دس دن تھی اور حضرت خدیجہ اٹھائیس سال کی تھیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کو بارہ اوقیہ سونا مہر میں دیا تھا۔ حضرت خدیجہ آپ کی خدمت میں نبوت سے پہلے پندرہ سال اور ہجرت سے پہلے تین سال تک حیات میں رہیں ، پھر اُن کی وفات : ہوگئی ۔ اس وقت رسول الله عليم الله صلى الله ) کی عمر انچاس سال آٹھ ماہ تھی ۔ روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا کہ میں قیامت میں تمام انسانوں کا سردار ہوں گا لیکن میری اولاد میں سے ایک ہستی ایسی ہے جو مجھ سے افضل ہے ۔ اس کی بیوی اس کے دین میں اس کی مدد گار ہوگی ۔ میری بیوی نے میرے ساتھخیانت کی اور اس میں میری مددگار بنی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے شیطان پر اُس کی مدد کی ۔ میرا شیطان انکار کرنے والا بنا رہا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ اسلام لائیں ، مردوزن میں حضرت ابوبکر اور لڑکوں میں حضرت علی بن ابی طالب سب سے پہلے ایمان لائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا کہ میں خدیجہ کو جنت کے اُس گھر کی بشارت دوں جو نہایت وسیع ہے ، جس میں شور و غوغا ہے اور نہ تکلیف ۔ ایک مرتبہ جبریل نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت خدیجہ کو ان کے رب کا سلام کہیں تو رسول اللہ ﷺ نے نے فرمایا: اے خدیجہ یہ جبریل الله ہیں اور تمھیں رب کا سلام پہنچاتے ہیں۔
0 Comments