کاروباری مشاغل حضور اقدس ﷺ کا
اصل خاندانی پیشہ تجارت تھا اور چونکہ آپ بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے، جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا۔ اس لیے ذریعہ معاش کے لیے آپ نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ اور تجارت کی غرض سے شام و بھرٹی اور یمن کا سفر فرمایا۔ اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ نے تجارتی کاروبار کیا کہ آپ کے شرکاء کار اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ایک کامیاب تاجر کے لیے امانت ، سچائی ، وعدے کی پابندی، خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔
ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین نے جو تاریخی شاہ کار پیش کیا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نادر روزگار ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء صحابی ہی اللہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلان نبوت سے پہلے میں نے آپ سے کچھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کر دوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعد ویا د ہی نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اُس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور ﷺ کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر میری اس وعدہ خلافی سے حضور ے کے ماتھے پر ایک ذرائل نہیں آیا۔ بس صرف اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
(سنن ابو داؤد، ج 2 ، ص 334 ، باب فی العدة مجتبائی )
اسی طرح ایک صحابی حضرت سائب علی جب مسلمان ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور لوگوں نے اُن سے حضور ﷺ کے خلق عظیم کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو انہوں نے
فرمایا کہ میں حضور پینے کو تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں ۔ اعلان نبوت سے پہلے آپ میرے شریک تجارت تھے لیکن حضور ﷺ نے ہمیشہ معاملہ اتنا صاف اور ستھرا رکھا کہ کبھی بھی کوئی تکرار یا تو تو نہیں میں کی نوبت ہی نہیں آئی۔ (سنن ابو داؤد، ج 2 ص 317 ، باب کراہیتہ المراء مجتبائی ) غیر معمولی کردار حضور اقدس ﷺ کا زمانہ طفولیت ختم ہوا۔
جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ کا شباب مجسم حیا اور چال چلن عصمت دو قار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلان نبوت سے قبل حضور ﷺ کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی۔ سچائی، دیانت داری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتے داروں سے محبت ، رحم و سخاوت ، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غم خواری ، غربیوں اور مفلسوں کی خبر گیری ، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوق خدا کی خیر خواہی ۔ غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کے لیے وہاں تک رسائی تو کیا ، اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا ، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا، ہر معاملے میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور پینے کا خاص شیوہ تھا۔ حرص طمع ، دعا ، فریب ، جھوٹ ، شراب خوری، بدکاری، ناچ گانا ،لوٹ مار، چوری بخش گوئی عشق بازی ، یہ تمام بری عادتیں اور مذموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں حضور ﷺ کی ذات گرامی ان تمام عیوب ونقائص سے پاک رہی۔ آپ کی راست بازی اور امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں آپ کے برگزیدہ اخلاق کا اعتبار اور سب کی نظروں میں آپ کا ایک خاص وقار تھا۔ بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہوگئی۔
لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسومات اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ کا دامن عصمت پاک ہی رہا۔ مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خود خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے لیکن اس کے
باوجود آپ نے بھی بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔ اعظم پبلی کیشنز. غرض نزول وحی اور اعلان نبوت سے پہلے بھی کی مقدس زندگی اخلاق حسنہ اور محاسن افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب ونقائص سے پاک وصاف رہی۔ چنانچہ اعلان نبوت کے بعد آپ کے دشمنوں نے انتہائی کوشش کی کہ کوئی ادنی سا عیب یا ذراسی خلاف تہذیب کوئی بات آپ کی زندگی کے کسی دور میں بھی مل جائے تو اس کو اچھال کر آپ کے وقار پر حملہ کر کے لوگوں کی نگاہوں میں آپ کو ذلیل وخوار کر دیں ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں دشمن سوچتے سوچتے تھک گئے لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں مل سکا جس سے وہ آپ پر انگشت نمائی کر سکیں۔ لہذا ہر انسان اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہے کہ بلاشبہ حضور ﷺ کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیر العقول اور غیر معمولی کردار ہے جو نبی کے سوا کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد سعید روحیں آپ کا کلمہ پڑھ کر تن من ن کے ساتھ اس طرح آپ پر قربان ہونے لگیں کہ ان کی جاں نثاریوں کو دیکھ کر شمع کے پروانوں نے جاں شماری کا سبق سیکھا۔ اور حقیقت شناس لوگ فرط عقیدت سے آپ کے حسن صداقت پر اپنی عقلوں کو قربان کر کے آپ کے بتائے ہوئے اسلامی راستے پر عاشقانہ اداؤں کے ساتھ زبان حال سے یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ دحسن چلو وادی عشق میں پا برہنہ یہ جنگل وہ ہے جس میں کانٹا نہیں ہے
0 Comments