انسانوں میں ہمیشہ دشمنی کیوں ہوتی ہے Insan Me Dushmani Kyun Hoti hai

 انسانوں میں ہمیشه دشمنی رهے گی 



حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام نہایت ہی آرام اور چین کے ساتھ جنت میں رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا تھا کہ جنت کا جو پھل بھی چاہو بے روک ٹوک سیر ہو کر تم دونوں کھا سکتے ہو۔ مگر صرف ایک درخت کا پھل کھانے کی ممانعت تھی کہ اس کے قریب مت جانا ۔ وہ درخت گیہوں تھا یا انگور وغیرہ تھا۔ چنانچہ دونوں اس درخت سے مدت دراز تک بچتے رہے۔

 لیکن ان دونوں کا دشمن ابلیس برابر تاک میں لگا ر ہا۔ آخر اس نے ایک دن اپنا وسوسہ ڈال ہی دیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں اور اللہ تعالی نے جس درخت سے تم دونوں کو منع کر دیا ہے وہ ” شجرۃ الخلد ہے یعنی جو اس درخت کا پھل کھائے گا، وہ کبھی جنت سے نہیں نکالا جائے گا۔ پہلے حضرت حوا علیہا السلام اس شیطانی وسوسہ کا شکار ہوگئیں اور انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اس پر راضی کر لیا اور وہ نا گہاں غیر ارادی طور پر اس درخت کا پھل کھا گئے۔ 

 آپ نے اپنے اجتہاد سے سمجھایا کہ

 لا تَقْرَ بَاهَنِ الشَّجَرَة

 ربا الفقرة : کی نہی تنزیہی ہے اور واقعی ہرگز ہرگز نہی تحریمی نہیں تھی ۔ ورنہ حضرت آدم علیہ السلام نبی ہوتے ہوئے ہرگز ہرگز اس درخت کا پھل نہ کھاتے کیونکہ نبی تو ہر گناہ سے معصوم ہوتا ہے بہر حال حضرت آدم علیہ السلام سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا سرزد ہوگئی اور اجتہادی خطا معصیت نہیں ہوتی۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص ١٠٩٤ ، پ ١ البقرة : ٣٦) لیکن حضرت آدم علیہ السلام چونکہ در بارالہی میں بہت مقرب اور بڑے بڑے درجات پر فائز تھے اس لئے اس اجتہادی خطا پر بھی مورد عتاب ہو گئے ۔ فوراً ہی بہشتی لباس دونوں کے بدن سے گر پڑے اور یہ دونوں جنت کے پتوں سے اپنا ستر چھپانے لگے ، اور خداوند قد دس کا حکم ہو گیا کہ تم دونوں جنت سے زمین پر اتر پڑو۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے دو خاص با تیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ تمہاری اولاد میں بعض بعض کا دشمن ہوگا کہ ہمیشہ آپس میں انسانوں کی دشمنی چلتی رہے گی ۔ دوسری یہ کہ عمر بھر تم دونوں کو زمین میں یہ ٹھہرنا ہے پھر اس کے بعد ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس واقعہ کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ فَازَلَهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَاخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعُ إِلَى حِينٍ ( ١ البقرة : ٣٦) ترجمه کنز الایمان تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں : سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا نیچے اتر و آ پس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔

اس ارشاد ربانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ جو انسانوں میں مختلف وجوہات کی بناء پر عداد یں اور دشمنیاں چل رہی ہیں یہ بھی ختم ہونے والی ہیں۔ لاکھ کوشکر کہ دنیامیں لوگوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا خاتمہ ہو جائےمگر چونکہ یہ حکم خداوندی کے باعث ہے اس لئے عداد میں بھی ہرگز ختم نہ ہوں گی۔ کبھی ایک ملک دوسرے ملک کا دشمن ہوگا کبھی مزدور اور سرمایہ دا میں دشمنی رہے گی کبھی امیر و غریب کی عداوت زور پکڑے گی بھی مذہبی ولسانی شنی رنگ لائے گی بھی تہذیب و تمدن کے باہمی ٹکراؤ کی دشمنی ابھرے گی کبھی ایمان داروں اور بے ایمانوں کی عداوت رنگ دکھائے گی۔ الغرض دنیا میں انسانوں کی آپس میں عداوت و دشمنی کا بازار ہمیشہ گرم ہی رہے گا اس لئے لوگوں کو اس سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ اس عداوت اور دشمنی کو ختم کرنے کی تدبیروں پر غور وخوض کر کے پریشان ہونے سے کوئی فائدہ ہے۔ کیونکہ جس طرح اندھیرے اور اجالے کی دشمنی ، آگ اور پانی کی دشمنی ، گرمی اور سردی کی شنی بھی ختم نہیں ہوسکتی، ٹھیک اسی طرح انسانوں میں آپس کی دشمنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اللہ عز و جل نے حضرت آدم و حوا علیہا السلام کے زمین پر آنے سے پہلے ہی یہ فرما دیا کہ 

بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُو 

یعنی ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن ہوگا تو یہ عداوت و دشمنی علی اور فطری ہے جو حکم الہی اور اس کی مشیت سے ہے تو پھر بھلا کون ہے جو اس عداوت کا دنیا سے خاتمہ کر سکتا ہے واللہ تعالیٰ اعلم.


Post a Comment

0 Comments