عورتوں کی آزادی خود انکے حق میں
کون نہیں جانتا کہ عورتوں کی اور خود عورتوں آزادی ملک کو کو تباہ کر ڈالتی ہے ، قوم کی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالتی ہے ۔اور خود عورتوں کو جنت سے جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔ عورت اس بیسویں صدی میں خوش ہے کہ اسے حقوق مل رہے ہیں ۔ وہ ہر محکمہ میں ملازمت حاصل کر رہی ہے مگر اسے پتہ نہیں کہ مردوں نے اسے بیل گائے کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اُسے ذره برابر چین نہیں ۔ اپنے قدرتی فرائض سے دن بدن دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مردوں کی تفریح کے لئے عورتوں کو سنیما کے پردوں پر آنا پڑا ۔ مردوں کی دلبستگی کا سامان مہیا کرنے کے لئے تھیٹر کی نا پاک زندگی قبول کرنی پڑی ۔ مردوں کی ہوس پوری کرنے کے لئے ان کو کلب اور ناچ رنگ گھروں میں ناچنا پڑا، اور حد یہ ہے کہ محض مردوں کی شہوت پرستی کے سلسلہ میں عورتوں کو عریاں کلب بنانا پڑا۔ مگر اب تک عورت یہی سمجھ رہی ہے کہ مردوں کی غلامی سے ہمیں نجات مل گئی
بریں عقل و دانش باید گریست
عورتوں کی آزادی مردوں کے حق میں
مردنہیں سوچا کہ عورت کی آزادی سے اس کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے ۔ کتنی شریف زادیاں سنیما اور تھیٹر وغیرہ کی نمائش بن گئیں۔ کتنے شریفوں کی بہو بیٹیاں گھر سے نکل گئیں اور کتنی پاک دامن عورتوں کی عصمت رسوا ہو رہی ہے ۔ کالج یونیورسٹی اور کلبوں میں جو کچھ ہوتا ہے ، اُس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ ہر پڑھا لکھا جانتا ہے ۔ اسلام نے عورتوں کی قدم قدم پر اسی وجہ سے عصمت میں رہنمائی کی ہے کہ نظام تمدن بر قرار رہے ۔ اور مرد و عورت دونوں صحیح طرح اپنے اپنے فرائض منصبی بحسن و خوبی انجام دے سکیں ، جہاں شریعت کی بتائی ہوئی راہ کے خلاف عورت و مرد کا اجتماع ہوتا ہے وہاں یقینی طور پر جلد یا بدیر فتنے اُٹھتے ہیں، اور دونوں ہی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہ اور کاہل ثابت ہوتے ہیں ۔
عورت کہاں سے کہاں پہنچتی ہے۔
اب آئے اور دیکھئے کہ تمدن جدید کے ہاتھوں عورت کو کیا ملا اور اس کی وجہ سے اُس نے کیا کھویا۔ خیر سے مغربی یا مغرب زده عورت اب آزاد ہو گئی ہے۔ اُس پر نہ گھر کی پاپندی بباقی رہی ہے اور نہ خاوند اور اولاد کی۔ کی وہ دن رات ہوٹلوں میں سنیماؤں میں ، تھیٹروں میں، بازاروں میں، پارکوں میں ، راستوں میں اور گلی کوچوں میں سر برہنہ ، سینہ عریاں ،ننگی باہیں نکالے ، چہرہ بے نقاب کئے ، رخساروں پر سرخی اور پوڈر تھوپے ، مردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مارے مارے پھرتی نظر آتی ہے ۔ گھر کے کاموں سے اُسے کوئی واسطہ نہیں۔ شوہر کی اطاعت اس کے لئے ضروری نہیں ۔ بچوں کی غور و پرداخت کرنا اُس کا کام نہیں۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو، اُس نے بڑی مشکلوں سے آزادی حاصل کی ہے اور اب وہ آزادی سے، زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اخلاق ، آداب ۔ مذہبی پابندیاں ، شرم وحیا ، یہ سب چیزیں اُس کے نزدیک پرانی ہو گئی میں چنانچہ وہ ان میں سے کسی کو نہیں مانتی۔ اس آزادی سے مغربی یا مغرب زدہ عورت کو جو کچھ ملا ، وہ تو آپ نے دیکھ لیا۔ لیکن اس کی وجہ سے جو اُس نے کھویا وہ ملاحظہ کیجئے ۔ مغرب میں خانگی زندگی بالکل تہ و بالا ہو چکی ہے۔ عورت مرد سے آزاد ہو کر ہوس کی بندی اور خواہشات کی غلام بن گئی ہے ۔ وہاں کی عام زندگی فسق و فجور کا دو سرا نام ہے۔ گھر کی راحت جو انسانی زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے، مغرب میں مفقود ہوتی جا رہی ہے ۔ اول تو اُن کے ہاں اولاد پیدا کرنا ہی زندگی کا جنجال سمجھاجاتا ہے اور اگر اولاد پیدا ہو بھی جائے تو ماں کو گھر میں باہر کی دلچسپیوں سے اتنی فرصت نہیں ملتی تھی کہ وہ اولاد کی تربیت کی طرف توجہ دے سکے ۔ الغرض اس بے مہار آزادی کی وجہ سے عورت گھر کی ملکہ ھونے کی بجائے بازار کی رونق بن کر رہ گئی ہے ۔ ذوقِ بے حجابی اور شوق تبرج صرف چہرہ کی بے نقابی پر ہی قناعت نہیں کرتا۔ پہلے نقاب اُٹھتی ہے۔ پھر جھکی ہوئی نگاہیں آہستہ آہستہ بلندہوتی ہیں۔ پھر لباس میں تخفیف ہونا شروع ہوتی ہے ، پھر آرائش اور بناؤ سنوار میں یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ لوگ دیکھیں اور شوق و قدر دانی کی نگاہ رکھیں، ہوسناکیوں اور بے اعتدالیوں اور برائیوں کا یہ سلسلہ شاخ در شاخ بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ جو عورت پہلی بار چہرہ کو بے نقاب کرتے ہوئے فرط شرم و غیرت سے پسینہ پسینہ ہو گئی تھی وہ آگے چل کر کلب گھروں
میں غیر مردوں سے بغل گیر ہو کر ناچتی اور تھرکتی ہے۔
0 Comments