بت پرستی کی ابتدا ( 01 )
دن کی روشنی مدھم ہوتے ہی کوہستانِ نوذ کے دامن میں شام کا ایک عجیب سا سکوت چھا چکا تھا۔ فضاء میں ہلکی ہلکی خنکی اور ہوا کے سرگوشی نما جھونکے ماحول کو مزید پراسرار بنا رہے تھے۔ ابلیس، جو اپنے زوال کے بعد بھی اپنی چالاکیوں میں مشغول تھا، قابیل کے قبیلے میں پہنچا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سا اعتماد اور نگاہوں میں ایک شعلہ تھا، جو کسی نئی سازش کا اعلان کر رہا تھا۔
"قابیل!" اس کی گہری آواز نے سکوت کو توڑا۔ "مجھے اپنے قبیلے کا ایسا نوجوان دو جو تیز عقل کا مالک ہو۔ میں اسے ایک ایسا فن سکھاؤں گا جس سے وہ تمہارے لیے ایک چیز بنائے، ایسی چیز جس کے سامنے تم خدا کے بجائے جھکو اور برکت حاصل کرو۔"
قابیل، جو اپنی اولین خطا کے بعد بھی اپنی ضدی طبیعت پر قائم تھا، ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر قریب کھڑے نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ ہے طیراش، میرا قریبی ساتھی اور قبیلے کا سب سے ذہین فرد۔ اس سے بہتر کوئی نہیں۔"
ابلیس نے ایک لمحے کے لیے طیراش کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔ "تم اسے میرے ساتھ بھیج دو۔ میں اسے کوہستانِ نوذ کی چوٹی پر لے جاؤں گا اور وہاں اسے اپنا فن سکھاؤں گا۔"
چوٹی کی طرف بڑھتے ہوئے طیراش کے دل میں بے شمار سوالات امڈ رہے تھے۔ اچانک اس نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا، "اے عزازیل! تم تو زمین پر سب سے زیادہ علم رکھنے والوں میں ہو۔ آدم کی تخلیق سے لے کر ان کے جنت سے نکلنے تک کے تمام واقعات تمہارے علم میں ہیں۔ ہمیں بھی وہ داستان سناؤ تاکہ ہم اپنے جدِ امجد کے حالات سے آگاہ ہو سکیں۔"
ابلیس نے ایک ٹھنڈی سانس لی، جیسے یہ داستان سنانے میں اسے تکلیف ہو۔ "آہ! یہ داستان میرے زوال کی کہانی ہے۔ خدا نے آدم کو مٹی سے بنایا اور جب اس میں روح ڈالی تو اس نے چھینک ماری اور فوراً خدا کی حمد کی۔ پھر خدا نے آدم کو حکم دیا کہ قریب کھڑی روحوں کو سلام کرو۔ خدا نے کہا، یہ تمہارے اور تمہاری نسل کا سلام ہوگا۔"
ابلیس کی آواز گہری اور بوجھل ہو گئی۔ "پھر خدا نے حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سب نے سر تسلیم خم کیا، مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا، ‘میں مٹی سے بنے ایک انسان کو کیوں سجدہ کروں؟’ اور اسی انکار کی سزا میں، میں مردود ہو گیا۔ لیکن میں نے خدا سے وعدہ لیا کہ قیامت تک میں انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا۔"
"آدم اور حوا جنت میں خوش تھے، لیکن میں نے انہیں جنت سے نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ وہی درخت، جس سے خدا نے منع کیا تھا، میں نے انہیں اس کے قریب لے جا کر بہکایا۔ جب آدم اور حوا نے ممنوعہ پھل کھایا، تو خدا نے انہیں زمین پر بھیج دیا۔ وہ دو سو سال تک روتے رہے، چالیس دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا، اور سو سال تک ایک دوسرے سے جدا رہے۔"
چوٹی کے قریب پہنچ کر ابلیس نے طیراش کو گہری نظروں سے دیکھا۔ "اب سنو، طیراش! میں تمہیں ایک عظیم فن سکھانے جا رہا ہوں، ایک ایسا فن جو انسانیت کی تاریخ بدل دے گا۔" طیراش کے ہاتھوں کو سنگ تراشی کا ماہر بنانے میں ابلیس نے اپنی چالاکیاں جھونک دیں۔
جب فن مکمل ہوا تو ابلیس نے طیراش کو کہا، "اب واپس اپنے قبیلے جاؤ اور ایک بت بناؤ۔ لوگوں کو یہ باور کراؤ کہ یہ تمہاری دعاؤں کا ذریعہ ہے۔ خدا کے بجائے اس کے سامنے جھکو اور اس سے اپنی حاجات طلب کرو۔"
طیراش، جو ابلیس کی عقل کا قائل ہو چکا تھا، مگر اس کے دل میں خوف چھپا ہوا تھا۔ "اے عزازیل! ہمارے قبیلے میں پانچ نیک لوگ ہیں: ودہ، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر۔ یہ لوگ میرے راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔ وہ ایک خدا کی عبادت پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر میں نے تمہارے کہے پر عمل کیا، تو یہ لوگ مجھے جان سے مار ڈالیں گے۔"
ابلیس نے مسکراتے ہوئے کہا، "طیراش، یہی تمہارا حل ہے۔ ان پانچوں کو قتل کر دو اور ان کے ہی مجسمے بنا کر لوگوں کو یہ یقین دلاؤ کہ یہ مقدس ہیں۔ ان کی عبادت کرو اور ان سے اپنی حاجات پوری کرو۔ دیکھنا، لوگ کس طرح بت پرستی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔"
طیراش نے ابلیس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ان پانچوں نیک لوگوں کے بت تراشے اور قبیلے میں رکھ دیے۔ آہستہ آہستہ لوگ خدا کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت میں مشغول ہو گئے۔
یہاں سے بت پرستی کا آغاز ہوا، اور حضرت شیث نے کوشش کی کہ لوگوں کو راہِ راست پر لائیں، لیکن طیراش کے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت اس قدر عام ہو چکی تھی کہ حضرت ادریس تک کی تبلیغ کو جھٹلایا جانے لگا۔
یوں، ابلیس کی مکاری نے انسانیت کو ایک نئی گمراہی کی طرف دھکیل دیا۔
سید محمد رضا حنفی
متعلم : جامعہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی
جاری ______________
0 Comments