قرآن سیرت کی کتاب ہے؟
عام طور پر جب کوئی شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کچھ لکھنا یا پڑھنا چاہتا ہے تو اُس کے ذہن میں سب سے پہلے یہی بات آتی ہے کہ آپ کی سیرت پر مستقل جو کہتا ہیں لکھی گئی ہیں، انھیں دیکھا جائے۔ لہذا وہ سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام اور سیرت النبی جیسی مشہور کتا بیں لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ لوگ جو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ک صیح اور مستند طریقوں سے جانے کا علمی ذوق رکھتے ہیں ، وہ حدیث کی روایتوں میں سیرت کے مضامین تلاش کرتے ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے مقابلے میں سیرت کا سب سے زیادہ مستند و معتبر حوالہ قرآن مجید ہے۔ دیکھا جائے تو قرآن مجید ایک اعتبار سے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب ہے،
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مشہور قول ہے : " إِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللهِ ، كَانَ الْقُرْآنَ “ ۔ (یعنی آپ کا اخلاق و کردار قرآن ہے ۔ ..... ( تفسیر عبدالرزاق : ۳۳۰/۳ ( حدیث : ۳۲۷۴) اخلاق و کردار ہی کا دوسرا نام تو سیرت ہے۔ قرآن مجید کی ان چند مثالوں کو د یکھئے جن سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے:۔
آپ کا تعارف
- ﴿وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُاللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ (الصف: ۶) ( اور جب حضرت عیسی ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل ! بلا شبہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ، مجھ سے پہلے جو توریت ( حضرت موسیٰ پر ) نازل ہوئی ، اُس کی تصدیق کرتا ہوا اور ایک رسول کی خوشخبری دیتا ہوا جو میرے بعد آئے گا ، اُس کا نام احمد ہوگا ۔ اس آیت سے پتہ چلا کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام جس رسول کے آنے کی خوشخبری سناتے تھے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، کیونکہ حضرت عیسی مسیح کے بعد آپ کے علاوہ کوئی دوسرا رسول نہیں آیا اور اس لئے بھی کہ آپ ہی کا آسمانی نام ”احمد“ ہے اور حضرت
- عیسیٰ اُسی ”احمد نام سے آپ کو یاد کرتے ہیں۔
محض مکہ اور مدینہ والوں کے نبی نہیں تھے ، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے رسول ہیں اور آپ کی شریعت کے بعد کسی نئی شریعت اور نئے قانون کی کوئی ضرورت نہیں اور آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کا ذکر اتنا پھیلے گا اور آپ کے لائے ہوئے دین اور شریعت کا اتنا چر چا ہو گا کہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانی گروہوں تک آپ کی رسالت کی تبلیغ ممکن ہو سکے گی۔ دین میں نرمی اور آسانی ہے: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ﴾ (الانبیاء : ۱۰۷) ( اور ہم نے تمھیں سارے جہان کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔ آپ سراپا رحمت ہیں تو آپ کے لائے ہوئے دین اور شریعت میں سختی اور نگی نہیں ہوسکتی، بلکہ نرمی اور آسانی ہے، کیونکہ رحمت کا تقاضا ہی یہی ہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ اسلام سارے جہان کے لئے کافی اور آخری دین ہے۔ افضل رسول: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُس ﴾ (البقرة : ۲۵۳) یہ رسول ہیں جن میں سے ایک کو دوسرے پر ہم نے فضیلت دی ، ان میں سے ایک نے اللہ سے کلام کیا اور ایک کو درجوں بلند کیا اور ہم نے عیسی ابن مریم کو واضح نشانیاں دیں اور ہم نے روح القدس ( جبریل ) کے ذریعے اُن کی مدد کی ۔ اللہ سے کلام کرنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں اور انھیں اس اعتبار سے زیادہ فضیلت حاصل ہے اور حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی زیادہ فضیلت یہ ہے کہ انھیں بہت سارے بڑے بڑے معجزات دیئے گئے اور حضرت جبریل علیہ السلام اکثر و بیشتر ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں حضرات کی فضیلت بھی یہیں تک تھی لیکن جس رسول کو سب سے زیادہ فضیلت دی گئی اور اُسے درجوں بلند کیا گیا ، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ذات تھی۔ یہ بات قرآن میں اس طرح بھی بیان کی گئی ہے: وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ) ( الشرح : ... اور ہم نے تمھارے لئے تمھارے ذکر کو بلند کیا ۔ ... آج دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ سب سے زیادہ ذکر آپ کا ہو رہا ہے اور یہ آپ کے درجوں بلند ہونے کی واضح دلیل ہے۔ عظیم شخصیت : آپ کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ عرش سے اور آسمانوں سے آپ پر ہر دم درودوں کی بارش ہوتی رہتی ہے، قرآن میں ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : ... (بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی اُس پر درود پڑھو اور زیادہ سے زیادہ سلام بھیجو۔ ) آپ اپنی خواہش سے نہیں بولتے تھے : ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ) (النجم : ۴۳) (اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، اُن کی بولی وحی ہے جو انھیں بھیجی جاتی ہے۔ ) آئیڈیل پر سنالٹی : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی اور مذہبی کردار ایسا تھا جو دوسروں کے لئے تقلید کا ایک نمونہ اور آئیڈیل تھا۔ ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ (الاحزاب : ۲۱ ) ( یقینا تمھارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ ) آپ کی پیروی خدا تک لے جانے والی هے : ﴿قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( آل عمران : ۳۱) (اے رسول! کہہ دو کہ اگر تم لوگ خدا سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا ۔ ) اس جہت سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔
0 Comments