سلسلہ نبوت و رسالت کے منقطع ہونے کے بعد بکثرت ایسے مخلصین پیدا ہوئے جنہوں نے اپنےاپنے طور پر تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشر و اشاعت اور اثر و نفوذ میں حصہ لیا ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ضلالتوں گمراہی کے ظلمت کدے کو وحی الہی کے روشن پیغام سے منور کیا تاریکی و معصیت کی ذلت آمیز پستی میں گرتی انسانیت کو عزت آمیز بلندی کا سفر طے کرایا انیسویں صدی کا عرصہ اپنی مسافت پوری کر چکا تھا 20ویں صدی کے طلوع شمس کی سرخیاں دکھائی دے رہی تھی جب ہند کے مسلمانوں کے درمیان عقائد و اعمال کا قدیم و جدید فتنہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ یکجا ہو کر منظر و شہود پر آچکا تھا افکار انسانی اپنی گمراہیوں اور اعمال انسانی اپنی رذالتوں کے انتہا پر پہنچ چکے تھے ایسے تعفن زدہ ماحول میں کچھوچھہ مقدسہ کی سرزمین پر ایک ایسا سالار کارواں پیدا ہوا جس نے خاندان کے بجھتے چراغوں کو روشن کیا مرجھاتی سرگرمیوں کی نشأۃ ثانیہ کی ہلاکت و بربادی ذلت و خواری اور نکبت و رسوائی کے گڑھے کی طرف جانے والوں کا رخ پھیر دیا اسلامی اور روحانی معاشرہ قائم کرنے کے لیے شریعت و طریقت کا مینار کھڑا کر دیا جس نے اس طرح کے کارناموں سے اپنے خاندانی عظمت و وقار کا فریرا بلند کیا وہ مجدد سلسلۂ اشرفیہ مخدوم الاولیاء قطب الارشاد محبوب ربانی مرشد لاثانی مہبط اسرار یزدانی منبع سلوک روحانی مخزن دقائق عرفانی ہم شبیہ غوث جیلانی ابو احمد سید شاہ علی حسین اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کی ذات ہے جن کے گھر ایک نیکوکار عفت شعار اور بخت آور فرزند کا تولد ہوا اور علم و فکر دعوت و عزیمت کی راہ کا ایسا مسافر بنا جسے متعدد وجوہات کی بنیاد پر در نایاب اور یکتائے روزگار کہا جاتا ہے جسے سراج المحققین تاج الواعظین عالم ربانی مناظر اہل سنت ابوالمحمودسید شاہ احمد اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے چار دانگ عالم میں شہرت حاصل ہے۔
ولادت با سعادت
ولادت با سعادت چار شوال المکرم بروز جمعہ بوقت صبح 1286 ہجری کو اپ کی ولادت با سعادت ہوئی نام ابو المحمود سید شاہ احمد اشرف اشرفی جیلانی بن سید شاہ علی حسین اشرفی جیلانی بن سید شاہ سعادت حسین اشرفی جیلانی
رسم بسم اللہ خوانی محبوب ربانی مخدوم الاولیاء قدس سرہ ،کا ارشاد ہے "میرے فرزند نجف حاجی سید ابو المحمود احمد اشرف کی رسم بسم اللہ خوانی کے لیے حضور غوث العالم کی خصوصی طلب پر حضرت مولانا آل احمد پھلواری محدث مدنی تشریف لائے اور اپ کی زبان اقدس سے یہ رسم انجام پذیر ہوئی
اساتذہ علم و فضل کے موسم بہار سے محظوظ ہونے کے لیے چند گلستان علم و ادب میں آپ نے پڑاؤ ڈالا اپ کے سرخیل اساتذہ میں سے متعدد یہ ہے مرجع الکل عالم استاذ العلماء مولانا ابو الخیر معین الدین رحمۃ اللہ علیہ مانک پور الہ آباد امام علوم و فنون عارف باللہ استاذ زمن مولانا شاہ احمد حسن استاذ الکل حضرت امام مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی
دستار گہربار قیام علی گڑھ کے دوران حضرت عالم ربانی قدس سرہ کو عالم رویا میں دیدار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوا اس خواب کو مؤرخین و سوانح نگار نے قدرے تفصیل سے لکھا ہے اختصارا یہ کہ عالم خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست اقدس سے اپ کے سر مبارک کو دو رومال سے ملفوف کر دیا(بحوالہ: عالم ربانی نمبر(
تبحر علمی عالم ربانی واعظ لاثانی حضرت العلام مولانا سید احمد اشرف تمام علوم و فنون مروجہ اور غیر مروجہ پر کامل دسترس رکھتے تھے علم تفسیر، حدیث اسماء الرجال, اصول فقہ، اصول حدیث، علم کلام ،تواریخ وسیر، منطق و فلسفہ، ریاضی اور بہت سارے ایسے فنون جن کے نام بھی اب درسگاہوں میں باقی نہیں رہ گئے ان سب پر آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی فن ریاضی تو جیسے اپ کا اپنا فن تھا 2 لاکھ برس تک کی جنتری انگریزی ماہ کے حساب سے مرتب فرما کر شائع فرمائی اور وہ بھی اتنی مختصر کہ صرف ایک بالشت کاغذ میں آسکتی ہے اور ساتھ ہی یہ چیلنج بھی جنتری کے نیچے لکھ دیا آج سے 2 لاکھ سال تک میری جنتری میں جو غلطی نکال دے اسے زر خطیر انعام دیا جائے گ ا(بحوالہ :عالم ربانی نمبر)
مناظرے
مناظرے اپ نے احقاق حق کے لیے بہت سے مناظرے کیے ان میں سے ایک وہ مناظرہ ہے جو خود کچھوچھہ شریف میں صفر 1339 ہجری مطابق اکتوبر 1920 عیسوی میں مولوی غنیمت حسین مونگیری سے کئی نشستوں میں ہوا جس کی ایک نشست کےبعض سوالات جو آپ نے مخالف مناظر سے کیے یہ ہیں
١: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنی توہین کفر ہے یا اسلام؟
٢: اگر کوئی بات حقیقتا حضور کی توہین ہو اور کتب عقائد میں اس کا ذکر نہ ہو وہ کفر ہے یا اسلام؟
٣: جو توہین حقیقتا توہین ہو اور عقائد میں اس کا ذکر نہ ہو اس توہین کو توہین قرار دینے کا معیار کیا ہے؟
اسی طرح ایک مناظرہ ضلع میمن سنگھ (حالیہ بنگلہ دیش) مقام اسٹوگرام میں پانچ مولوی اپ سے بحث و مباحثہ کے لیے ائے انہوں نے ذکر جہری کو بدعت ثابت کرنا چاہا آپ نے ان مولویوں سے فرمایا کہ آداب بحث و مناظرہ یہ ہے کہ کوئی ایک فرد اپنی طرف سے اصالۃ اور اپنی جماعت کی طرف سے وکالۃ بحث کے لیے متعین کیا جائے لہذا اپ لوگوں میں سے ایک فرد بحث کے لیے متعین ہو جائے پھر بات ہوگی پانچ مولویوں میں سے ایک نے دعوی کیا کہ حلقہ ذکر جہری منعقد کرنا بدعت ہے اور دلیل یہ پیش کی کہ قران و حدیث اور اجماع و قیاس میں اس کی دلیل موجود نہیں ہے عالم ربانی نے ان کے دعوے کے بطلان پر قران و حدیث کے دلائل پیش کرتے ہوئے قرانی نص کے عموم و خصوص اور پھر نص کے اقسام اور اشیاء کی اباحت اصلیہ پر ایسی علمی گفتگو فرمائی اور خود مولوی کی تقریر سے اس کے مدعا کو منطقی انداز میں ایسا باطل فرمایا کہ حق قبول کرنے کے سوا مولوی کو کوئی چارۂ کار نہ رہا چنانچہ ان مولویوں میں سے چار تو اسی وقت بد عقیدگی سے تائید ہو کر اپ کے دست مبارک پر بیت ہو گئے بلکہ وہ مولوی خود تائب ہو کر اپ کے دست حق پر بیت ہو گیا(ماہنامہ سلطان المشائخ ماہ ستمبر 1955عیسوی)
اسلام اور اس کے بدخواہ عرب میں ایک مشہور مقولہ ہے تعرف الاشیاء باضدادھا
یعنی ہر چیز کا کمال اس کی ضد سے پہچانا جاتا ہے دنیا میں ہر صاحب کمال کے لیے حاسدوں اور دشمنوں سے واسطہ پڑنا ضروری اور ناگزیر ہے اسلام کو بھی ہمیشہ دشمنوں سے واسطہ رہا اور ہر زمانے میں اس کے دشمن طرح طرح کی مکاریوں اور عیاریوں سے اس کی بد خواہی کے لیے امادہ و تیار ہوئے ا اور اہل ہوی نے اپنی ذاتی اغراض اور نفسیاتی خواہشات پورا کرنے کے لیے مذہب کا چولا پہن پہن کر دنیا کو دھوکہ دیے تھوڑا ہی زمانہ گزرا ہے کہ وہابیوں کے علماء مولوی غنیمت حسین اور ان کے اعوان وانصار بھاگلپور میں مناظرے کا اعلان چھاپ چھاپ کر اپنی تعلیوں کا اظہار کرنے کے بعد عین موقع پر تاریخ اور وقت مقرر کر کے فرار ہو چکے ہیں اور ہزارہا ادمیوں کا مجمع اپنی انکھوں سے دیکھ چکا ہے کہ وہابی مولوی صاحبان کسی طرح مجلس مناظرہ میں تشریف لانے کی ہمت نہیں فرماتے اور باوجود یہ کہ خود وقت و مقام مناظرہ معین کیا ہیں اور انہیں کے اعلانوں کی وجہ سے ہزارہا مسلمان مناظرہ دیکھنے کی غرض سے مقام مناظرہ پر موجود اور حاضر ہوئے لیکن وہابی صاحبان کو میدان میں لانے کے لیے کسی طرح کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو سکی پھر یہ تدبیر سوچی کہ کچھوچھہ مقدسہ میں مولوی سید احمد اشرف صاحب مدہ ظلہ الاعالی کو اعلان مناظرہ دیا جائے کہ وہاں اگر مناظرہ ہو بھی گیا اور سامنے انا ہی پڑا تو وہ ایک ایسا مقام ہے جہاں عام مجمع تو نہ ہو سکے گا دس بیس ادمیوں میں ذلت بھی ہوئی تو اس کی پرواہ نہیں وہاں سے آکر پھر خلق خدا کو دھوکہ دے لیں گے کہ ہم مولوی سید احمد اشرف مدظلہ العالی اور حضرت محدث صاحب دامن برکاتہ کو ہرا آئے اسی خیال پر بھاگل پور سے چل کر وہابیوں کی ایک جماعت کی کچھوچھہ مقدسہ پہنچی انہوں نے اپنی کاروائی کی ابتدا اس مکاری سے کی کہ ایک خط مولوی وجیہ الدین صاحب کی جانب سے اپ کے پاس بھیجا گیا جس میں انہوں نے شیخ ہمت علی صاحب وغیرہ ساکنان نے اگرپور بھاگلپور اور شیخ اصغر علی وغیرہ ثاکنان راجپور بھاگلپور کی جانب سے خود کو حکم اور ثالثی مقرر کیے جانے کا ذکر کیا اور اس خط میں اپ کو اپنے دعوی کی تائید کے لیے مولوی غنیمت حسین کے ساتھ آستانۂ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی میں 25 اکتوبر آٹھ بجے دن مناظرہ کی دعوت دی گئی جب یہ خط اپ کے پاس پہنچا تو اپ کو بے حد استعجاب ہوا یہ کیسے خود ساختہ حکم اور ثالثی ہے جو ہماری رضامندی کے بغیر خود بخود حکم اور ثالثی بن گئے غرض بعض اہل خاندان سےمشورہ کیاگیا کہ کہیں اس دھاندلی سے فساد کا ارادہ تو نہیں ہے مگر سب کی یہ رائے ہوئی کہ چلنا چاہیے چنانچہ مولانا سید احمد اشرف دامن برکاتہ مقام مناظرہ پر تشریف لے گئے اور حضرت محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو سخت بخار تھا مگر ان کی حمیت مذہبی اور جوش ایمانی کا تقاضا تھا کہ اسی حالت میں باوجود شدت مرض و غایت تکلیف پالکی پر تشریف لے گئے
روداد مناظرہ منعقدہ
11 صفر المظفر یوم دو شنبہ قت 10 بجے دین بمقام درگاہ کچھوچھہ شریف مولانا سید احمد اشرف صاحب و مولانا غنیمت حسین صاحب کے مابین یہ طے ہوا کہ براہین قاطیہ، حفظ الایمان، اور تحذر الناس میں جو عبارتیں ایسی ہیں جن کو مولانا احمد اشرف صاحب کلمات کفر یہ اور جن کے قائلین کو کافر کہتے ہیں مولانا موصوف یہ ثابت کریں کہ دراصل وہ کلمات کلمات کفریہ اور ان کے قائلین کافر ہیں اور مولانا غنیمت حسین یہ ثابت کریں کہ کلمات مذکور کلمات کفریہ نہیں ہے اور ان کے قائلین مسلمان ہیں
سوالات مولانا سید احمد اشرف صاحب
سوالات
سوال مولوی غنیمت حسین صاحب
١ سوال :اگر کسی قول یا کسی مسئلے میں کئی احتمالات ہوئے ہوں اور ان میں بعض احتمالات تکفیر کے موجب ہوں اور بعض اسلام کے ایسی صورت میں کس احتمال کو ترجیح دینی چاہیے؟
جواب:اگر دلیل معتبر سے احتمال اسلام کا پیدا ہوتاہے تو احتمال اسلام کو ترجیح دی جائگی ورنہ احتمال کفر کو
٢سوال: توہین جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جن سے تکفیر ہوتی ہے اس کا معیار اپ کے نزدیک کیا ہے ؟
جواب: ہر توحید موجب تکفیر ہے اور اس کا معیار عرف عام ہے
٣سوال: تکفیر کے لیے کس کا قول معتبر ہے ؟
جواب :نصوصے قطعیہ یعنی قران مجید اور احادیث متواترہ
دوسرے دن کے لیے مناظرہ ملتوی ہوا
مناظرہ 26 اکتوبر 1920 عیسوی
مولانا سید احمد اشرف صاحب نے حفظ الایمان صفحہ 7/8 مطبوعہ مجتبائی سے عبارت ذیل پڑھ کر سنائی پھر یہ کہ اپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد ہےبعض غیب ہے یا کل غیب اگر بعض علم غیبیہ مراد ہے تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے؟
عبارت مذکور پر مولانا کا اعتراض
قائل نے مطلق علم کی دو قسمیں بیان کی ہیں ایک علم کل اور ایک علم بعض علم کل یعنی ہر چیز کا علم سوائے اللہ تعالی کے کسی اور کو نہیں اب دوسرا علم بعض ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک علم کثیر ہے اور ایک علم قلیل مگر اس کو مصنف نے ذکر نہیں کیا اگر حضور کا علم کثیر مان لیتا تو یہ گندی تشبیہ نہیں دے سکتا تھا اس لیے محض بعض علوم غیبیہ کو ذکر کیا اور پھر اس کے بعد یہ بتایا کہ اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے گویا کمال علم کی تخصیص کا انکار کیا اور اس پر بھی اس کی تسکین نہ ہوئی تب اس نے حضور کے علم کو زید و عمرو کے علم سے تشبیہ دی پھر خیال ہوا کہ زید عمر بھی مولوی عالم ہوتے ہیں اس کے کلیجہ کو ٹھنڈک نہیں پہنچی تو اس کے بعد صبی یعنی لڑکے اور مجنون یعنی پاگل کے علم سے تشبیہ دی دی پھر خیال ہوا کہ بعض بچے زیرک ہوتے ہیں بعض پاگل پڑا لکھ کر مجنون ہو جاتے ہیں تو اپنی کمال عداوت کا اس طرح اظہار کیا کہ بلکہ جمیع حیوانات اور بہائم کے لیے بھی حاصل ہے جس میں سور ،کتے، گدھے بھی شامل ہیں اس مقام پر مسلمانوں کو غور سے سننا چاہیے کہ یا تو جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کا انکار ہیں اور دلائل قطعیہ کا مطالبہ ہے اور جب اہانت اور تنقیص سے شان رسالت پر ایا تو گدھے اور سور تک کے علم غیب کو تسلیم کر لیمیں اپنے مناظر مخاطب سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ گدھے سور کے علم غائب کی کوئی نص قطعی دکھا سکتے ہیں اور اگر نہیں اور ہرگز نہیں دکھا سکتے ہیں تو بتائیے کہ اس مقام پر جمیع حیوانات اور بہائم کا ذکر کرنا محض تنقیص شان رسالت ہی کے لیے تو ہے ورنہ اس کے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی علاوہ اس کے اس نفس دلیل کو بھی ملاحظہ کیجئے کی وہ مطلق علم میں بھی جاری ہے کیونکہ ہم حضور کو عالم کل علوم کی بنا پر نہیں کہتے پس اگر کسی شخص سے کہا جائے کہ تمہارے پیر کی ذات مقدسہ پر عالم کا اطلاق کیا جانا بقول تمہارے اگر صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس علم سے مراد کل علم ہے یا بعض علم ہے اگر بعض علوم مراد ہے تو اس میں تیرے پیر کی کیا تخصیص ہے ایسا علم تو گدھے سور کو بھی حاصل ہے اس لیے کہ گدھا بھوک کے وقت غزا تلاش کرتا ہے دشمن کو دیکھ کر بھاگتا ہے سور اپنے بچے کو دودھ پلاتا ہے وغیرہ ذالک تو بتائیے اس میں تمہارے پیر کی تنقیص و توہین ہے یا نہیں اگر تمہارے پیر کے بارے میں کوئی ایسا کہے تو تنقیص و توہین ہے تو جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی اس طرح کا گستاخانہ لفظ کہے تو اس کے بارے میں اپ کیا فرماتے ہیں یہ سن کر وہ مبہوت و ششدر رہ گیا جب حضرت مولانا سید شاہ احمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ اس قدر تقریر فرما چکے تو مولوی غنیمت حسین نے اپنی کسی ضرورت سے بھاگل پور وغیرہ جانے کا بہانہ کر کے مناظرہ کو 11 نومبر تک ملتوی کرنے کی درخواست کی چنانچہ مناظرہ یوم پنج شبہ مطابق 29 صفر المظفر گیارہ نومبر کے لئے ملتوی ہوا اور دس نومبر تک مولوی غنیمت حسین تشریف نہ لاۓ اس وقت وہابیہ نے ان کے فرار پر پردہ ڈالنے کی غرض سے مناظرے میں مزید التوا کی کاروائی ضروری سمجھی اور چال یہ چلی کہ مولانا سید احمد اشرف صاحب قبلہ کے نام ایک خط لکھا جس میں مفت کرم داشتن وکار بر آوردن کے طریقے پر مناظرہ ٹالنے کا احسان حضرت قبلہ مد ظلہ االعالی کے سر رکھنا چاہا مگر الحمدللہ یہ تدبیر نہ چلی اور حضرت مولانا نے کسی طرح تاریخ معین کے ملتوی ہونے پر رضامندی کا اظہار نہ فرمایا اخر کا وہابیہ کا یہ مکر کھل گیا
لہذا کامیاب مناظر وہ ہوتا ہے جس کی تقریر سے مد مقابل ایسا مغلوب ہو کہ دو باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے یا تو حق کو قبول کرے یا راہ فرار اختیار کرے دونوں صورتوں میں حق کا اظہار ہوگا اس طرح حق کا اظہار ہوا اور باطل شکست کھا کر راہ فرار اختیار کر گیا
تاریخ وصال۔بالآخر علم وعمل کا یہ کوہ ہمالہ 15 ربیع الاخر سن 1347 ہجری کو عین حالت نماز میں دار فانی سے دار بقا کی جانب رحلت فرما گئے انا للہ وانا الیہ راجعون اپ کے جنازے میں شرکاء کا اس قدر ہجوم تھا خد اعلی حضرت حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے فرمایا" میں اکثر بزرگوں کے جنازے میں شریک ہوا مگر اس قدر ہجوم اور اس شان کا جنازہ کسی کا نہیں دیکھا"
0 Comments