معراج کا واقعہ کیسے پل بھر میں صدیوں کا سفر طے ہوا Meraj Ka Waqiya

 ------------- #عجائب_عالم_05 -------------


______ *پل بھر میں صدیوں کا سفر* _______

آنکھ جھپکی نہیں اور ہو گیا صدیوں کا سفر 

جانے کس شان سے گزرے ہیں شہ جن و بشر

رات کا وقت تھا، مکّہ کی فضا پر سکون اور خاموش تھی۔ خانہ کعبہ کے اردگرد ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی، جیسے پوری کائنات کسی عظیم واقعے کے انتظار میں ہو۔ محمد عربی روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلم، جو کہ دنیا کے عظیم ترین رہنما و لیڈر، انسانیت کے معلم و مربی ، اور اللہ کے محبوب بندے ہیں، اس وقت ام ہانی کے گھر آرام فرما تھے یہ وہ وقت تھا جب آپ ﷺ کا دل اللہ کے ذکر اور اس کے قرب کی شدید طلب میں مشغول تھا۔ کیونکہ حبیب مکرم کی آنکھیں اگرچہ بظاہر بند ہوتی ہیں مگر ان کا دل بیدار رہتا ہے۔


یہ واقعہ رجب کی ایک مبارک رات میں پیش آیا، جسے آج پوری دنیا میں شب معراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ رات ایک معجزاتی سفر کی داستان سناتی ہے، ایسی داستان جو پوری انسانیت کے لیے رہنمائی، روحانی ترقی، اور اللہ کی عظمت کے مظہر کا نشان ہے۔


وہ وقت حریم شب کا تھا جب حضرت جبرائیل علیہ السلام، جو اللہ کے خاص فرشتے ہیں، اللہ کے حکم سے نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے۔ آپ ﷺ کو براق نامی ایک جنتی سواری پر سوار ہونے کو کہا۔ (براق کا ذکر اسلامی تاریخ میں نہایت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ اس کی رفتار، حسن اور طاقت انسانی تخیل سے بالاتر تھی۔ اتنی تیز رفتار تھی کہ جہاں اس کی نظر جاتی، وہ وہاں لمحوں میں پہنچ جاتی تھی۔)

جب آپ ﷺ براق پر سوار ہوئے تو مکّہ کی گلیاں اور وادیاں پیچھے رہ گئیں۔ لمحوں میں آپ ﷺ بیت المقدس پہنچ گئے۔ یہ جگہ، جو آج مسجد اقصیٰ کے نام سے جانی جاتی ہے، انبیاء کرام کی عظیم تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔


بیت المقدس میں نبی کریم ﷺ کو تمام انبیاء کرام کی امامت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ وہ موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے مقام و مرتبے کو نہایت واضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ تمام انبیاء کرام، جو مختلف ادوار میں اللہ کے پیغام کو انسانیت تک پہنچاتے رہے، اس نماز میں آپ ﷺ کے پیچھے صف بستہ کھڑے تھے۔ یہ گھڑی میثاق ازل کے لتؤمنن به کی بہترین تفسیر تھی۔ اور اس بات کا اشارہ تھا کہ نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں اور اللہ کے تمام انبیاء کا مشن آپ ﷺ کی ذات پر مکمل ہوتا ہے۔ 

نـمـازِ اَقـصٰـی میـں تـھا یـہی سِـرّ عـیاں ہوں مَـعـنـیِ اَوَّل آخــر

کہ دَست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے


اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو آسمانوں کی طرف چلے۔ پہلا آسمان، دوسرا آسمان، تیسرا آسمان... الغرض سدرۃ المنتہی تک، ہر آسمان پر مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی۔


پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جنہیں اللہ نے انسانیت کا باپ بنایا تھا۔


دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات ہوئی، جو محبت، عاجزی، اور ایمان کی علامت ہیں اور روح اللہ بھی۔


تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جن کا حسن اور صبر دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔


چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔


اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے "مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح" یعنی اے نبی صالح خوش آمدید اور اے فرزند دلبند مرحبا کے محبت بھرے کلمات سے استقبال کیا۔


آسمانوں کے سفر کے بعد نبی کریم ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا۔ یہ مقام کائنات کی آخری حد ہے، جہاں سے آگے کسی بھی مخلوق کا جانا ممکن نہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا، "یا رسول اللہ ﷺ، یہاں سے آگے میں نہیں جا سکتا۔ یہ صرف آپ کا خاصہ ہے۔"


علامہ پیر کرم شاہ ازہری لکھتے ہیں:

"حضور ﷺ آگے بڑھے یہ وہ مقام تھا جہاں انسانی عقل اور تخیل رک جاتا ہے۔ جس کی کیفیت الفاظ کے پیمانوں میں سما نہیں سکتی۔ عقاب ہمت یہاں بھی آشیاں بند نہیں ہوا اور آگے بڑھے کہاں تک گئے اسے ماوشما کیا سمجھیں۔ زبان قدرت نے مقام قرب کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ثم دنیٰ فتدلی فکان قاب قوسین اوادنیٰ وہاں کیا ہوا۔ یہ بھی میری اور آپ کی عقل کی رسائی سے بالاتر ہے۔ قرآن نے بتایا کہ فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی کے الفاظ ملاحظ ہوں۔ "پھر شاہد مستور ازل نے چہرہ سے پردہ اٹھایا اور خلوت گاہ راز میں ناز و نیاز کے وہ پیغام عطا ہوئے۔" اسی مقام قرب اور گوشہ خلوت میں دیگر انعامات نفیسہ کے علاوہ پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم ملا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عرض داشت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کئی بار بارگاہ رب العزت میں تخفیف کے لیے التجا کی۔ چنانچہ نماز کی تعداد پانچ کردی گئی، اور ثواب پچاس کا ہی رہا۔ فراز عرش سے محبوب رب العالمین مراجعت فرمائے خاکدان ارضی ہوئے۔" 


جب نبی کریم ﷺ واپس زمین پر تشریف لائے تو وہی رات تھی، وہی سکون اور خاموشی۔ مگر اس رات نے پوری انسانیت کی تاریخ بدل دی۔ نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ صحابہ کرام کو سنایا، تو اس واقعے کی صداقت کے ذریعے کوئی صدیق بنا تو کسی کے گلے میں ہمیشہ کے لیے لعنت کا طوق ڈال دیا گیا۔ اور یہ بات تمام مسلمانوں کے لیے ایمان کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔


آج کی دنیا بے پناہ ترقی کی منزلیں طے کر چکی ہے۔ انسان نے وہ کارنامے انجام دیے ہیں جو کبھی خواب و خیال میں بھی ممکن نہیں تھے۔ چاند پر کمند ڈالنا، خلا کی وسعتوں کو تسخیر کرنا، اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لمحوں میں رسائی حاصل کرنا جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی وہ کامیابیاں ہیں جو آج کے دور کی پہچان بن چکی ہیں۔ آج فاصلے سمٹ گئے ہیں اور زمانے کی رفتار حیران کن حد تک بڑھ چکی ہے۔

لیکن آج سے صدیوں پہلے، جب نہ کوئی مشین تھی، نہ سائنس کا کوئی وجود، اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا، اُس وقت کائنات کی وسعتوں میں ایک ایسا سفر طے ہوا جو انسانی عقل کو دنگ کر دینے والا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات محض پل بھر میں صدیوں کا سفر طے کیا۔ یہ واقعۂ سفر انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد اور بے مثال واقعہ ہے۔

معراج کا یہ واقعہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ دنیا کی ترقی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو جائے، قدرت کے نظام کے آگے یہ سب کچھ محدود ہے۔ جہاں آج انسان اپنی مشینوں کے ذریعے فاصلے مٹا رہا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو لمحوں میں وہ حقیقتیں دکھا دیں جن تک سائنس کبھی پہنچ بھی نہیں سکتی۔

معراج کا یہ عظیم سفر صرف ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایمان اور یقین کی ایک مثال ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر شے پر حاوی ہے اور اُس کے رسول ﷺ کی فضیلت اور اس کا مقام ہر حد سے بلند ہے۔ یہ ہمیں اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ اصل طاقت اور حکمت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ سفر معراج نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے یہ پیغام ہے کہ کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لیے ایمان اور اللہ پر بھروسہ سب سے اہم ذریعہ ہے۔


نہ حـجاب چرخ و مسـیح پر نہ کلیـم و طور نہاں مگر

جو گیا ہے عرش سے بھی ادھر وہ عرب کا ناقہ سوار ہے

( امام احمد رضا محدث بریلوی )

جاری _____________________________


سید رضا حنفی 

متعلم : جامعہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی 

 28 جنوری 2025

Post a Comment

0 Comments